برطانیہ میں محققین کی ایک ٹیم نے طویل عرصے سے ناپید انواع کے ارتقائی رازوں کو سمجھنے کے لیے روبوٹکس کی مدد لی ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی کے ڈاکٹر مائیکل اشیڈا کی قیادت میں اس ٹیم نے حال ہی میں ایک پروگرام شروع کیا ہے جس کا مقصد معدوم شدہ جانوروں کے روبوٹک ماڈلز کو متحرک کرکے لاکھوں سال کے ارتقا کو ایک دن کے اندر سمجھنا ہے۔
ڈاکٹر مائیکل اشیڈا نے وضاحت کی کہ “ہم ایک نئی تھری ڈی پرنٹ شدہ ٹانگ اور انجینئرنگ کی مدد سے ایک ہی دن میں لاکھوں سال کے ارتقا کی نقل کر سکتے ہیں۔”
ٹیم نے خاص طور پر فوسلائزڈ مچھلی کے آباؤ اجداد کی حرکت کو دوبارہ تخلیق کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے، جس میں ایک منفرد مچھلی شامل ہے جو زمین پر زندگی کے مطابق زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
محققین کے مطابق، یہ روبوٹ جو اس مچھلی کی اناٹومی اور حرکات کی نقل کرتے ہیں، ان ارتقائی دباؤ کو سمجھنے میں زیادہ مددگار ثابت ہوں گے جنہوں نے ان جانوروں کو پانی سے باہر آنے پر مجبور کیا۔ یہ تحقیق نہ صرف ماضی کی دنیا کی سمجھ کو گہرا کرے گی بلکہ ارتقائی سائنس کے نئے دروازے بھی کھولے گی۔
ڈاکٹر مائیکل اشیڈا نے وضاحت کی کہ “ہم ایک نئی تھری ڈی پرنٹ شدہ ٹانگ اور انجینئرنگ کی مدد سے ایک ہی دن میں لاکھوں سال کے ارتقا کی نقل کر سکتے ہیں۔”
ٹیم نے خاص طور پر فوسلائزڈ مچھلی کے آباؤ اجداد کی حرکت کو دوبارہ تخلیق کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے، جس میں ایک منفرد مچھلی شامل ہے جو زمین پر زندگی کے مطابق زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
محققین کے مطابق، یہ روبوٹ جو اس مچھلی کی اناٹومی اور حرکات کی نقل کرتے ہیں، ان ارتقائی دباؤ کو سمجھنے میں زیادہ مددگار ثابت ہوں گے جنہوں نے ان جانوروں کو پانی سے باہر آنے پر مجبور کیا۔ یہ تحقیق نہ صرف ماضی کی دنیا کی سمجھ کو گہرا کرے گی بلکہ ارتقائی سائنس کے نئے دروازے بھی کھولے گی۔