اسلام آباد۔ مستقبل کا تصور کریں جہاں آپ کے موبائل پر نوٹیفکیشن آتا ہے کہ آپ کے متوفی والد کا ڈیجیٹل بوٹ تیار ہے۔ مردہ پیاروں سے بات چیت کرنے کا یہ ورچوئل طریقہ، خواہ وہ ورچوئل ریئلٹی ہیڈسیٹ کے ذریعے ہو، ایک سائنس فکشن فلم میں داخل ہونے جیسا ہے جو دلچسپ اور قدرے خوفناک دونوں ہی ہوسکتا ہے۔
جب آپ اپنے والد کے ڈیجیٹل ورژن سے بات کریں گے تو آپ کو ایک جذباتی رولر کوسٹر پر سوار ہونے کا تجربہ ہوگا۔ آپ کے سامنے ایسے راز اور کہانیاں آتی ہیں جن کا آپ کو علم بھی نہیں تھا، اور یہ سب مرحوم کی اصل شخصیت کو بھی تبدیل کر سکتا ہے جس سے آپ واقف ہیں۔
یہ کوئی خیالی یا فرضی منظرنامہ نہیں ہے۔ موت کے بعد کی زندگی کے حوالے سے ڈیجیٹل انڈسٹری ترقی پذیر ہے۔ کئی کمپنیاں یہ وعدہ کر رہی ہیں کہ وہ مردہ لوگوں کی ڈیجیٹل معلومات کی بنیاد پر انہیں ورچوئلی زندہ کرسکتی ہیں۔
مصنوعی ذہانت (اے آئی) چیٹ بوٹس اور ورچوئل اوتار سے لے کر ہولوگرام تک، یہ ٹیکنالوجیز سکون اور پریشانی کا ایک انوکھا امتزاج پیش کرتی ہیں۔ یہ ہمیں گہرے ذاتی تجربات سے جوڑ کر ماضی اور حال، یادداشت اور حقیقت کے درمیان کی لائنوں کو دھندلا کر دیتی ہیں۔
جیسے جیسے یہ نیا ڈیجیٹل شعبہ ترقی پذیر ہوتا جا رہا ہے، ویسے ویسے یہ نمایاں اخلاقی اور جذباتی چیلنجز پیدا کر رہا ہے۔ ان میں رضامندی، رازداری، اور زندہ افراد پر نفسیاتی اثرات شامل ہیں۔
ڈیجیٹل آفٹر لائف انڈسٹری کیا ہے؟ ورچوئل ریئلٹی اور اے آئی ٹیکنالوجیز کی مدد سے اب اپنے مرحومین کو ڈیجیٹل دنیا میں زندہ کرنا ممکن ہے۔ اس صنعت کی کمپنیاں مردہ افراد کے سوشل میڈیا پوسٹس، ای میلز، ٹیکسٹ میسجز، اور صوتی ریکارڈنگ سے ڈیٹا استعمال کر کے ایسے ڈیجیٹل شخصیات تخلیق کرتی ہیں جو زندہ لوگوں کے ساتھ بات چیت کر سکتی ہیں۔
ہیئرآفٹر اے آئی کمپنی صارفین کو اپنی زندگی میں کہانیاں اور پیغامات ریکارڈ کرنے کی سہولت دیتی ہے، جن تک ان کے مرنے کے بعد ان کے پیاروں کی رسائی ہوتی ہے۔ ایک اور کمپنی مائی وشز موت کے بعد طے شدہ پیغامات بھیجنے کی صلاحیت رکھتی ہے جو شخص نے اپنی زندگی میں ریکارڈ کیے ہوتے ہیں۔
ہینسن روبوٹکس نے ایسے روبوٹک ڈھانچے بنائے ہیں جو مرنے والے کی یادوں اور شخصیت کی خصوصیات کو استعمال کر کے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں۔
ان ٹیکنالوجیز کے ذریعے آپ مرنے کے بعد بھی اپنے پیاروں سے رابطے میں رہ سکتے ہیں—تصویر: میٹا اے آئی پروجیکٹ دسمبر اپنے صارفین کو اپنے مرحوم پیاروں سے ڈیپ اے آئی کے ذریعے ٹیکسٹ میسجز پر بات کرنے کا موقع دیتا ہے۔
ڈیجیٹل آفٹر لائف انڈسٹری میں پیداواری اے آئی بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجیز انتہائی حقیقت پسندانہ اور انٹرایکٹو ڈیجیٹل شخصیات تخلیق کرتی ہیں۔ مگر اتنی زیادہ حقیقت پسندی سچ اور فرضی کے درمیان کی لائن کو دھندلا سکتی ہے۔ یہ صارف کے لیے ایک نیا تجربہ ہو سکتا ہے، لیکن ان کے لیے جذباتی اور نفسیاتی پریشانی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کمپنیوں کی خدمات لوگوں کو اپنے پیاروں کو کھونے کے دکھ سے نمٹنے کا موقع فراہم کر سکتی ہیں، اور وہ اپنے خیال میں مرنے کے بعد بھی ان سے رابطے میں رہ سکتے ہیں۔ اپنے پیاروں کی آواز سننا یا ورچوئل طور پر انہیں دیکھنا سکون دے سکتا ہے اور نقصان سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
کچھ لوگوں کے لیے یہ ورچوئل صورت تھراپی کا کام بھی کرسکتی ہے، ہمیں مرنے کے بعد بھی محسوس کرواتی ہے کہ وہ ہمارے آس پاس ہیں اور نئی مثبت یادیں بنانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
اسی طرح، کچھ لوگوں کے لیے یہ جذباتی اثر منفی بھی ہو سکتا ہے، اور غم کم ہونے کے بجائے بڑھ سکتا ہے۔ اگر بے ساختہ پیاروں کی اے آئی تخلیق سے سامنا ہو رہا ہے، تو اس سے زندہ شخص کی نفسیات پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں، جسے ’ڈیجیٹل خوف‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔
مثال کے طور پر، کیا معلوم کہ مردہ شخص نے اس بات کی اجازت دی ہو کہ اس کے ڈیٹا کو مرنے کے بعد ڈیجیٹل طور پر زندہ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے؟
یہاں ڈیٹا کے غلط استعمال یا اس میں ہیرا پھیری کا بھی خطرہ ہے۔ کمپنیاں کمرشل فوائد کے لیے بھی اس کا غلط استعمال کر سکتی ہیں اور انہیں اشتہارات یا سروسز فراہم کرنے والی مصنوعات کی طرح بھی استعمال کر سکتی ہیں۔
ورچوئل ہیڈسیٹ کے ذریعے اپنے مرحومین سے ملاقات ممکن ہے۔ نگرانی کی ضرورت ہے تیزی سے ترقی پذیر اس صنعت سے متعلق خدشات کو دور کرنے کے لیے ہمیں اپنے قانونی ڈھانچے کو اپ گریڈ کرنا ہوگا۔ ہمیں ڈیجیٹل اسٹیٹ پلاننگ جیسے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے، جو متوفی کے ڈیجیٹل ڈیٹا اور یادداشت کی ملکیت کی وراثت کے حوالے سے طے کرے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم متوفی صارفین کے ڈیٹا تک رسائی کو کنٹرول کرتے ہیں، اور اکثر ورثا کی خواہشات کے برعکس کچھ شقیں مسائل کو پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔ پلیٹ فارم کے محدود طریقے جی ڈی پی آر کے نفاذ میں رکاوٹ ہیں۔ جامع تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ انسانی حقوق کے مطابق معاہدے کے قوانین کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔
ڈیجیٹل آفٹر لائف انڈسٹری پیاروں کی یادوں کو تحفظ فراہم کرنے کی پیشکش کرتی ہے اور زندہ لوگوں کو ایک طرح کی تسلی دیتی ہے، مگر ساتھ ہی یہ اخلاقی اور جذباتی خدشات بھی پیدا کرتی ہے۔ ضوابط اور اخلاقی اصولوں کے ذریعے زندہ اور مردہ دونوں کا احترام کیا جا سکتا ہے تاکہ ڈیجیٹل دنیا میں اپنے مرحومین کو ہمیشہ کے لیے یاد رکھا جا سکے اور انسانیت کو بھی ٹھیس نہ پہنچے۔
ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اس ٹیکنالوجی کے منفی اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں محققین نے کئی اخلاقی ضوابط تجویز کیے ہیں۔ کچھ سفارشات میں شامل ہیں کہ لوگوں کے مرنے سے پہلے ڈیجیٹل شخصیات تخلیق کرنے کے حوالے سے انہیں آگاہ کیا جائے اور ان سے دستاویزی رضامندی لی جائے، کمزور لوگوں کی حفاظت کے لیے عمر کی پابندیاں لگائی جائیں، اور شفافیت اور مضبوط ڈیٹا کی رازداری اور حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانے کے لیے واضح اقدامات کیے جائیں۔
آثارِ قدیمہ میں اخلاقی فریم ورک سے اخذ کرتے ہوئے، 2018ء کے ایک مطالعے نے مرحومین کی ڈیجیٹل شخصیت کو برقرار رکھنے اور دوبارہ ورچوئل تخلیق میں ضوابط کی تجویز پیش کی ہے۔
اخلاقی اور ریگولیٹری حل تیار کرنے کے لیے پالیسی سازوں، آفٹر لائف انڈسٹری اور ماہرین تعلیم کے درمیان بات چیت بہت ضروری ہے۔ سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کو صارفین کے لیے ڈیجیٹل شخصیات کے ساتھ تعاملات کو احترام کے ساتھ ختم کرنے کے طریقے بھی پیش کرنے چاہئیں۔
محتاط اور ذمہ دارانہ ترقی کے ذریعے ہم ایک ایسا مستقبل تشکیل دے سکتے ہیں جہاں ڈیجیٹل آفٹر لائف ٹیکنالوجیز مردہ پیاروں کا احترام کریں۔
جب ہم اس نئی ٹیکنالوجی اور نئی دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں تو ممکنہ خطرات اور اخلاقی مسائل کے خلاف اپنے پیاروں کے ساتھ جڑنے کے فوائد میں توازن برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔
ایسا کرکے ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ ڈیجیٹل آفٹر لائف انڈسٹری اس طریقے سے ترقی کرے جو مرحومین کی یادوں کا احترام بھی کرے اور زندہ لوگوں کی جذباتی بہبود میں بھی معاون ثابت ہو۔