لندن۔برطانوی جریدے نے دعوی کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے زیر حراست سربراہ، عمران خان، کی جانب سے مذاکرات کی خواہش کے باوجود فوج کسی بھی قسم کی مفاہمت یا ڈیل کا ارادہ نہیں رکھتی۔
گارجین کی رپورٹ کے مطابق، عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ فوج عمران خان کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کی نیت نہیں رکھتی، حالانکہ عمران خان نے جیل سے عسکری قیادت سے بات چیت کی خواہش ظاہر کی تھی۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اڈیالہ جیل میں قید عمران خان سے صحافیوں کی ملاقات پر پابندی عائد ہے۔ تاہم، گارجین نے اپنے سوالات ان کے وکلاء کے ذریعے پہنچائے۔
عمران خان نے جواب میں کہا کہ اگست 2023 میں قید ہونے کے بعد سے ان کی فوج کے ساتھ کوئی براہ راست ملاقات نہیں ہوئی، لیکن ماضی میں فوج پر ان کی حکومت گرانے اور انہیں قید کرنے کے الزامات عائد کرنے کے باوجود وہ عسکری قیادت کے ساتھ ممکنہ مفاہمت کو خارج از امکان نہیں سمجھتے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ملاقات ہوئی تو وہ قومی مفاد اور اصولوں پر مبنی ہوگی، اور اس کا مقصد کسی ذاتی فائدے یا کمپرومائز کرنا نہیں ہوگا، جو ملک کی جمہوری اقدار کو نقصان پہنچائےعمران خان نے مزید کہا کہ وہ اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کے بجائے عمر بھر جیل میں رہنا قبول کریں گے۔
فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ایک سابق وزیراعظم کا سویلین کیس فوجی عدالت میں چلانا مضحکہ خیز ہوگا۔ ان کے مطابق، فوجی عدالت میں مقدمے کی وجہ صرف یہ ہوسکتی ہے کہ دیگر عدالتیں انہیں سزا دینے سے قاصر ہیں، اور یہ فیصلہ خطرناک مثال قائم کرے گا۔
جیل میں دی جانے والی سہولیات کے حکومتی دعووں کو مسترد کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ انہیں ایسے حالات میں رکھا گیا ہے جو تنہائی، خوف، اور ان کے حوصلے کو کمزور کرنے کے لیے ترتیب دیے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سیل میں بجلی نہیں، ورزش کی سہولت فراہم نہیں کی گئی، اور ملاقاتوں پر مکمل پابندی عائد ہے۔انہوں نے کہا کہ صحافیوں کی ملاقات اور مقدمے کی آزادانہ رپورٹنگ پر پابندی سے شفافیت پر سوال اٹھتے ہیں۔