آج موسمیات کا عالمی دن منایا گیا، جو گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کے حل تلاش کرنے کی اشد ضرورت پر زور دیتا ہے۔ اس دن کا مقصد دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے عوام میں آگاہی بڑھانا اور گلوبل وارمنگ کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کرنا ہے۔
8 دسمبر کو پہلی بار 2017 میں غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) نے موسمیات کے عالمی دن کے طور پر منانے کا آغاز کیا تھا۔ اس دن کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں اور ان کے اثرات کے بارے میں عالمی سطح پر بیداری پیدا کرنا اور اس حوالے سے عملی اقدامات کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔
موسمیاتی ماہرین طویل عرصے سے خبردار کرتے آرہے ہیں کہ انسانی سرگرمیاں گلوبل وارمنگ کا سب سے بڑا سبب بن رہی ہیں اور ان سرگرمیوں کے نتیجے میں زمین کے مختلف حصوں میں موسمیاتی تبدیلیاں اور قدرتی وسائل پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ کا عمل بنیادی طور پر انسانوں کے عمل سے شروع ہوا اور گزشتہ صدی میں تیز رفتار پھیلاؤ کا سامنا کیا ہے۔
آج، انسانی سرگرمیاں ہر سال تقریباً 40 بلین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا سبب بنتی ہیں، جس سے کرہ ارض کی حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں، عالمی درجہ حرارت میں ہر سال 1 ڈگری کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا اثر نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں اور دیگر جانداروں کی بقا پر بھی پڑ رہا ہے۔
فرانسیسی بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) کی حالیہ رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ سمندروں اور کرائیوسفیئر میں موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے کے لیے فوری، مربوط اور پائیدار اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ گلوبل وارمنگ کی رفتار کو روکا جا سکے۔ سمندر ایک بہت بڑی مقدار میں گرمی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور یہ کرہ ارض کے تھرمل توازن کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح، سمندر گلوبل وارمنگ کو سست رفتار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، سمندر ہر سال 40 بلین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ میں سے نصف سے زیادہ جذب کرتے ہیں، اور ان کی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت تقریباً 38,000 گیگاٹن ہے، جو تمام زمینی نباتات اور مٹیوں سے 16 گنا زیادہ ہے اور فضا میں موجود کاربن کی مقدار سے تقریباً 60 گنا زیادہ ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے عالمی سطح پر فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ گلوبل وارمنگ کو روکا جا سکے اور زمین کی بقا کو یقینی بنایا جا سکے۔
8 دسمبر کو پہلی بار 2017 میں غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) نے موسمیات کے عالمی دن کے طور پر منانے کا آغاز کیا تھا۔ اس دن کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں اور ان کے اثرات کے بارے میں عالمی سطح پر بیداری پیدا کرنا اور اس حوالے سے عملی اقدامات کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔
موسمیاتی ماہرین طویل عرصے سے خبردار کرتے آرہے ہیں کہ انسانی سرگرمیاں گلوبل وارمنگ کا سب سے بڑا سبب بن رہی ہیں اور ان سرگرمیوں کے نتیجے میں زمین کے مختلف حصوں میں موسمیاتی تبدیلیاں اور قدرتی وسائل پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ کا عمل بنیادی طور پر انسانوں کے عمل سے شروع ہوا اور گزشتہ صدی میں تیز رفتار پھیلاؤ کا سامنا کیا ہے۔
آج، انسانی سرگرمیاں ہر سال تقریباً 40 بلین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا سبب بنتی ہیں، جس سے کرہ ارض کی حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں، عالمی درجہ حرارت میں ہر سال 1 ڈگری کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا اثر نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں اور دیگر جانداروں کی بقا پر بھی پڑ رہا ہے۔
فرانسیسی بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) کی حالیہ رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ سمندروں اور کرائیوسفیئر میں موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے کے لیے فوری، مربوط اور پائیدار اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ گلوبل وارمنگ کی رفتار کو روکا جا سکے۔ سمندر ایک بہت بڑی مقدار میں گرمی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور یہ کرہ ارض کے تھرمل توازن کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح، سمندر گلوبل وارمنگ کو سست رفتار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، سمندر ہر سال 40 بلین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ میں سے نصف سے زیادہ جذب کرتے ہیں، اور ان کی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت تقریباً 38,000 گیگاٹن ہے، جو تمام زمینی نباتات اور مٹیوں سے 16 گنا زیادہ ہے اور فضا میں موجود کاربن کی مقدار سے تقریباً 60 گنا زیادہ ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے عالمی سطح پر فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ گلوبل وارمنگ کو روکا جا سکے اور زمین کی بقا کو یقینی بنایا جا سکے۔