عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے تپ دق (ٹی بی) کے لیے ایک نئے تشخیصی ٹیسٹ کی توثیق کی ہے، جو اس مہلک اور متعدی بیماری کے خاتمے کی کوششوں کو تیز کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔
یہ نیا ٹیسٹ Xpert MTB/RIF Ultra کے نام سے جانا جاتا ہے، اور اقوام متحدہ کے مطابق یہ ٹیسٹ جینیاتی مارکروں اور تپ دق کے جراثیم کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے مالیکیولر تجزیے کا استعمال کرتا ہے۔ ٹی بی کا بیکٹیریا عموماً متاثرہ افراد کے تھوک میں پایا جاتا ہے، اور یہ ٹیسٹ اس بیکٹیریا کو جلد اور موثر انداز میں شناخت کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
Xpert MTB/RIF Ultra وہ پہلا ٹیسٹ ہے جس نے عالمی ادارہ صحت سے “پری کوالیفیکیشن اسٹیٹس” حاصل کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ٹیسٹ سخت معیار کی جانچ سے گزر چکا ہے اور اب اسے عالمی سطح پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل برائے ایکسیس ٹو میڈیسن اینڈ ہیلتھ پراڈکٹس، ڈاکٹر یوکیکو ناکاتانی نے کہا کہ تپ دق کے لیے تشخیصی ٹیسٹ کی یہ پہلی پری کوالیفیکیشن ایک اہم سنگ میل کی نشاندہی کرتی ہے۔ ان کے مطابق، اس ٹیسٹ کی توثیق سے نہ صرف تشخیص میں بہتری آئے گی بلکہ تپ دق کے پھیلاؤ کو روکنے میں بھی مدد ملے گی، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں یہ بیماری بہت زیادہ پھیل چکی ہے۔
یہ پیشرفت دنیا بھر میں تپ دق کے علاج اور کنٹرول کے لیے ایک اہم قدم ثابت ہو سکتی ہے، جس سے مریضوں کی تشخیص میں مزید تیزی آئے گی اور علاج کے امکانات بہتر ہوں گے۔
یہ نیا ٹیسٹ Xpert MTB/RIF Ultra کے نام سے جانا جاتا ہے، اور اقوام متحدہ کے مطابق یہ ٹیسٹ جینیاتی مارکروں اور تپ دق کے جراثیم کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے مالیکیولر تجزیے کا استعمال کرتا ہے۔ ٹی بی کا بیکٹیریا عموماً متاثرہ افراد کے تھوک میں پایا جاتا ہے، اور یہ ٹیسٹ اس بیکٹیریا کو جلد اور موثر انداز میں شناخت کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
Xpert MTB/RIF Ultra وہ پہلا ٹیسٹ ہے جس نے عالمی ادارہ صحت سے “پری کوالیفیکیشن اسٹیٹس” حاصل کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ٹیسٹ سخت معیار کی جانچ سے گزر چکا ہے اور اب اسے عالمی سطح پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل برائے ایکسیس ٹو میڈیسن اینڈ ہیلتھ پراڈکٹس، ڈاکٹر یوکیکو ناکاتانی نے کہا کہ تپ دق کے لیے تشخیصی ٹیسٹ کی یہ پہلی پری کوالیفیکیشن ایک اہم سنگ میل کی نشاندہی کرتی ہے۔ ان کے مطابق، اس ٹیسٹ کی توثیق سے نہ صرف تشخیص میں بہتری آئے گی بلکہ تپ دق کے پھیلاؤ کو روکنے میں بھی مدد ملے گی، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں یہ بیماری بہت زیادہ پھیل چکی ہے۔
یہ پیشرفت دنیا بھر میں تپ دق کے علاج اور کنٹرول کے لیے ایک اہم قدم ثابت ہو سکتی ہے، جس سے مریضوں کی تشخیص میں مزید تیزی آئے گی اور علاج کے امکانات بہتر ہوں گے۔