اسلام آباد ۔پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی اہلیہ، بشریٰ بی بی، نے ڈی چوک پر جاری احتجاج سے واپسی کا فیصلہ پولیس اور رینجرز کی جانب سے ہونے والی آنسو گیس کی شیلنگ سے تنگ آکر کیا۔
بشریٰ بی بی کے خیبرپختونخوا واپسی کے فیصلے کے باعث اسلام آباد میں جاری احتجاج ختم ہو گیا۔ یہ دعویٰ اس لیے غیر متوقع ہے کیونکہ بشریٰ بی بی نے احتجاج ختم ہونے سے کچھ دیر پہلے کہا تھا کہ وہ “آخری سانس تک” ڈی چوک سے نہیں جائیں گی اور کارکنان سے عزم کا حلف بھی لیا تھا۔
ابتدائی منصوبہ یہ تھا کہ بشریٰ بی بی ایک محفوظ کنٹینر میں رہیں گی، جو انہیں شیلنگ اور دیگر خطرات سے محفوظ رکھے گا، اور وہ اندر سے احتجاج کی قیادت کریں گی۔ تاہم، جب مظاہرین کے کنٹینر کو آگ لگا دی گئی تو یہ محفوظ جگہ بھی غیر محفوظ ہو گئی، جس کے بعد بشریٰ بی بی نے فوری واپسی کا فیصلہ کیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پولیس اور رینجرز کی شیلنگ کے دوران مظاہرین کنٹینر چھوڑ کر علی امین گنڈا پور کے قافلے کی طرف چلے گئے، اور کنٹینر ایک گھنٹے تک بغیر سکیورٹی کے رہا۔ اسی دوران کچھ نامعلوم افراد نے کنٹینر کو آگ لگا دی۔ آگ لگنے سے پہلے بشریٰ بی بی کنٹینر سے نکل کر ایک گاڑی میں بیٹھ چکی تھیں، اور یہ منظر کیمرے پر بھی ریکارڈ ہوا۔
سوشل میڈیا پر ایک سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آئی ہے، جس میں مبینہ طور پر بشریٰ بی بی کو ایک چھوٹی گاڑی سے نکل کر علی امین گنڈا پور کی لینڈ کروزر میں بیٹھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ مناظر رات 11 بجے کے بعد کے ہیں۔
اس دوران، مریم ریاض وٹو نے سوشل میڈیا پر ٹویٹ کرتے ہوئے سوال کیا کہ “بشریٰ عمران خان کہاں ہیں؟”۔ ساتھ ہی خیبرپختونخوا پولیس نے تحقیقات شروع کی ہیں کہ مظاہرین کو آنسو گیس کے شیل کہاں سے ملے۔
رپورٹ کے مطابق ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ بشریٰ بی بی کو کنٹینر سے نکلنے کی ہدایت کس نے دی اور کنٹینر کو سکیورٹی کے بغیر کیوں چھوڑ دیا گیا۔ یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ آگ لگانے والے افراد کون تھے اور ان کا تعلق کس سے تھا۔