بغداد: عراق میں شادی کے قوانین میں ترمیم کے حوالے سے خبروں نے شدید تنازعہ پیدا کر دیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، عراقی حکومت ایک مجوزہ ترمیم کی تیاری کر رہی ہے جس کے تحت مردوں کو 9 سال کی لڑکیوں سے شادی کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ اس ترمیم پر سماجی کارکنان اور انسانی حقوق کے گروپوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے، کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ اس سے خواتین کے حقوق متاثر ہوں گے اور ملک میں کم عمری کی شادیوں میں اضافہ ہوگا۔
بھارتی اخبار کی رپورٹ کے مطابق عراق اپنے شادی کے قوانین میں ترامیم کرنے کے لیے تیار ہے، جس میں مردوں کو کم عمر لڑکیوں سے شادی کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، خواتین کے حقوق کو محدود کرنے کے لیے دیگر ترامیم بھی تجویز کی گئی ہیں، جن میں طلاق، بچوں کی تحویل اور وراثت کے حقوق میں کمی شامل ہے۔ اس بل کے تحت، شہریوں کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ اپنے خاندانی معاملات پر فیصلہ کرنے کے لیے مذہبی حکام یا سول عدلیہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم لڑکیوں کو “غیر اخلاقی تعلقات” سے بچانے کی کوشش کے طور پر پیش کی جا رہی ہے۔ تاہم، اس اقدام کے بعد حکومت اور پارلیمنٹ کے ارکان کو خواتین کے حقوق پامال کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اس ترمیم سے نوجوان لڑکیاں جنسی اور جسمانی تشدد کا شکار ہو سکتی ہیں۔
اقوام متحدہ کی چلڈرن ایجنسی کے مطابق، اگرچہ 1950 کی دہائی میں کم عمری کی شادیوں کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا، لیکن عراق میں آج بھی 28 فیصد لڑکیاں 18 سال کی عمر سے پہلے ہی شادی کر لیتی ہیں۔ نابالغ لڑکیوں کے والدین اپنے بیٹیوں کی شادی بڑے مردوں سے کرنے کی اجازت دیتے ہیں، جس سے ان کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ دو ماہ قبل عراقی پارلیمنٹ میں اس متنازع مسودہ قانون پیش کیا گیا تھا، جس میں لڑکی کے لیے کم از کم شادی کی عمر 9 سال اور لڑکے کے لیے 15 سال رکھی گئی تھی۔ اس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید اعتراضات کیے تھے اور اسے کم عمری کی شادیوں کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش قرار دیا تھا۔