واشنگٹن: امریکی اسٹیبلشمنٹ نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ان ممکنہ اقدامات پر غور و فکر کر رہی ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے لیے متنازعہ ہو سکتے ہیں۔
سی این این کی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال ٹرمپ نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ اگر وہ صدر منتخب ہو جاتے ہیں تو وہ اپنی سابقہ حکومت کے ایگزیکٹو آرڈرز کو دوبارہ نافذ کریں گے اور بدعنوان بیوروکریٹس کو برطرف کر دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ قومی سلامتی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں میں موجود بدعنوان عناصر کا صفایا کریں گے، جو ان کے مطابق وہاں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
امریکی وزارت دفاع، پینٹاگون کے حکام اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ اگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک میں فوج تعینات کرنے یا پینٹاگون سے غیرسیاسی عملے کو بڑے پیمانے پر برطرف کرنے کا حکم دیا تو انہیں کس طرح کا ردعمل ظاہر کرنا ہوگا۔
انتخابی مہم کے دوران، ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ اگر وہ صدر بنے تو قانون کی عملداری کے لیے فوج کو طلب کریں گے تاکہ غیرقانونی تارکین وطن کو ملک سے باہر نکالا جا سکے۔ اس کے علاوہ، وہ بیوروکریسی میں اپنے حمایتیوں کو شامل کریں گے اور امریکی اسٹیبلشمنٹ یا فوج میں موجود کرپٹ عناصر کا صفایا کریں گے۔
پچھلی حکومت میں ٹرمپ کی فوجی قیادت سے، خاص طور پر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک اے ملی کے ساتھ تعلقات تناؤ کا شکار رہے تھے۔ جنرل ملی نے ٹرمپ کے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے اختیارات کو بھی محدود کر دیا تھا۔ دوسری طرف، ٹرمپ نے امریکی فوجی جرنیلوں کو کمزور اور غیر مؤثر قرار دیا تھا۔
سی این این سے بات کرتے ہوئے پینٹاگون کے ایک افسر نے کہا کہ ہم کسی بھی سنگین صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں، مگر فی الحال ہمیں یہ واضح نہیں کہ کس نوعیت کے حالات پیش آ سکتے ہیں۔ آئین کے مطابق فوجی کسی غیر قانونی حکم کو رد کر سکتے ہیں، لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا فوجی افسران اپنے سپاہیوں کا ساتھ دینے کے لیے استعفیٰ دیں گے یا پھر انہیں چھوڑ دیں گے۔
اب تک ٹرمپ کے ممکنہ وزیر دفاع کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی ہے، لیکن پینٹاگون کے حکام کو امید ہے کہ ٹرمپ اس بار اسٹیبلشمنٹ سے کھلے طور پر تصادم سے گریز کریں گے۔
فوجی حکام یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ اگر ٹرمپ پچھلی حکومت کی طرح اس بار بھی بڑے پیمانے پر سرکاری افسران کے تبادلوں اور تقرریوں کا حکم دیتے ہیں تو پینٹاگون میں کون سے سویلین افسران اس عمل کا شکار ہو سکتے ہیں۔