لندن۔ڈونلڈ ٹرمپ بظاہر امریکی صدارتی انتخابات جیت چکے ہیں، لیکن حتمی نتائج کے اعلان کا ابھی انتظار ہے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت سے کیا پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی رہائی ممکن ہو سکے گی؟
گزشتہ ہفتے، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ٹروتھ“ پر بنگلہ دیش میں ہندوؤں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی مذمت کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ملک ’مجموعی طور پر افراتفری کی حالت میں ہے‘۔
ٹرمپ نے ہندوستان کے ساتھ امریکی شراکت داری کی بھی تعریف کی اور امریکی ہندو کارکنوں نے کہا کہ یہ تبصرے ان کی وکالت کا نتیجہ ہیں۔دوسری جانب قید سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے حامیوں کو امید تھی کہ ٹرمپ، عمران خان کی حالت زار پر توجہ دلانے کے لیے کچھ پوسٹ کرنے کا وقت نکالیں گے۔
پاکستانی نژاد امریکی کمیونٹی میں موجود عمران خان کے حامیوں میں سے بہت سوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ اپنی دوسری صدارتی مدت کے دوران سابق وزیر اعظم کی وکالت میں دلچسپی لیں گے۔ کیونکہ جب ٹرمپ صدر تھے تو انہوں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان سے وائٹ ہاؤس سمیت کئی بار ملاقات کی اور انہیں ”اچھا دوست“ کہا تھا۔
تاہم، فارن پالیسی کے ہفتہ وار ساؤتھ ایشیا بریف کے مصنف اور ولسن سنٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ یہ مصروفیات ممکنہ طور پر حقیقی دوستی کی وجہ سے کم اور ٹرمپ کی جانب سے افغانستان سے امریکی انخلا کے عمل کو شروع کرنے کے لیے طالبان کے ساتھ ملاقاتوں میں مدد فراہم کرنے کی ٹرمپ کی خواہش سے زیادہ تھیں۔مائیکل کوگل مین نے کہا کہ ٹرمپ کی اپنی انتخابی مہم کے دوران عمران خان کے بارے میں خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ ”سابق وزیر اعظم اور پاکستان“ ممکنہ طور پر ان کی ترجیحات کی فہرست میں نہیں ہوں گے۔