ایک نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ صرف انسان ہی نہیں، بلکہ جانور بھی الکوحل کا استعمال کرتے ہیں۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایکسیٹر کے محققین کی جانب سے کیے گئے ایک مطالعے میں انکشاف ہوا کہ بندر، لیمر اور پرندے ایسے پھلوں اور پھولوں کے رس کا استعمال کرتے ہیں جو ایتھانول، یعنی الکوحل کا ایک اہم جزو، رکھتے ہیں۔
یہ خمیر شدہ پھل اپنے حجم کے لحاظ سے دو فیصد تک الکوحل رکھ سکتے ہیں، لیکن محققین کے مطابق کچھ پھلوں میں یہ شرح 10.2 فیصد تک بھی جا سکتی ہے۔
تحقیق میں معلوم ہوا کہ نشے کے لیے قصداً ایتھانول کا استعمال کرنے والا سب سے بڑا گروہ بندروں کا تھا۔ چمپینزیوں کو بھی پتوں کے اسفنج کا استعمال کرتے ہوئے ایتھانول کے حامل رس جمع کرتے اور پیتے ہوئے دیکھا گیا۔
تحقیق کی مرکزی مصنفہ اینا بولینڈ نے بتایا کہ دماغی طور پر دیکھا جائے تو ایتھانول اینڈورفِن اور ڈوپامین کا اخراج کرتا ہے، جو ایک پُرسکون احساس پیدا کر سکتا ہے اور اس کے اجتماعی فوائد بھی ہو سکتے ہیں۔
سینئر مصنفہ کمبرلے ہاکنگز نے کہا کہ یہ نتائج اس خیال کو چیلنج کر رہے ہیں کہ ایتھانول کا استعمال صرف انسانوں تک محدود ہے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایکسیٹر کے محققین کی جانب سے کیے گئے ایک مطالعے میں انکشاف ہوا کہ بندر، لیمر اور پرندے ایسے پھلوں اور پھولوں کے رس کا استعمال کرتے ہیں جو ایتھانول، یعنی الکوحل کا ایک اہم جزو، رکھتے ہیں۔
یہ خمیر شدہ پھل اپنے حجم کے لحاظ سے دو فیصد تک الکوحل رکھ سکتے ہیں، لیکن محققین کے مطابق کچھ پھلوں میں یہ شرح 10.2 فیصد تک بھی جا سکتی ہے۔
تحقیق میں معلوم ہوا کہ نشے کے لیے قصداً ایتھانول کا استعمال کرنے والا سب سے بڑا گروہ بندروں کا تھا۔ چمپینزیوں کو بھی پتوں کے اسفنج کا استعمال کرتے ہوئے ایتھانول کے حامل رس جمع کرتے اور پیتے ہوئے دیکھا گیا۔
تحقیق کی مرکزی مصنفہ اینا بولینڈ نے بتایا کہ دماغی طور پر دیکھا جائے تو ایتھانول اینڈورفِن اور ڈوپامین کا اخراج کرتا ہے، جو ایک پُرسکون احساس پیدا کر سکتا ہے اور اس کے اجتماعی فوائد بھی ہو سکتے ہیں۔
سینئر مصنفہ کمبرلے ہاکنگز نے کہا کہ یہ نتائج اس خیال کو چیلنج کر رہے ہیں کہ ایتھانول کا استعمال صرف انسانوں تک محدود ہے۔