اسلام آباد۔ لاہور ہائی کورٹ نے کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کو پولٹری کمپنیوں کے خلاف مبینہ گٹھ جوڑ بنا کر ایک دن کے چوزے کی قیمت فکس کرنے کے خلاف کارروائی کی اجازت دیتے ہوئے، پولٹری کمپنیوں کی جانب سے لیا گیا اسٹے آڈر خارج کر دیا ہے۔ عدالت نے حکم نامے میں واضح کیا ہے کہ کسی ریگولیٹری ادارے کی جانب سے انکوائری کے دوران، عدالت سے رجوع نہیں کیا جا سکتا، بلکہ ریگولیٹری ادارے کی جانب سے آڈر جاری ہونے کے بعد ہی، عدالت سے ریلیف کے لئے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس جواد نے اپنے حکم میں واضح کیا ہے کہ ملک میں مارکیٹوں کو ریگولیٹ کرنا، کارٹل اور کاروباری گٹھ جوڑ کے خلاف کارروائی کرنا اور مارکیٹ میں مقابلے کی فضا کو برقرار رکھا کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کا بنیادی مینڈیٹ ہے، جیسے کہ چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ فیص?ہ میں لکھا ہے کہ عدالتوں کو متعلقہ ریگولیٹری اداروں کو ان کے فرائض کی انجام دہی میں سپورٹ کرنا ہے۔
کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان نے ایک دن کے چوزے کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی شکایات پر نوٹس لیتے ہوئے، پولٹری ہیچریوں کے خلاف انکوائری شروع کی تھی۔ تحقیقات کے دوران ، پاکستان پولٹری ایسوسی ائیشن کے دفتر سے ، پولٹری کمپنیوں کے گٹھ جوڑ کر کے قیمتیں بڑھانے کے واضح ثبوت حاصل ہوئے۔ تاہم، انکوائری اور شو کاز نوٹس کے اجرائ پر چند پولٹری کمپنیوں نے عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر لیا۔ کمپٹیشن کمیشن نے پولٹری کمپنیوں کے اس حکم امتناعی کو چیلنج کر رکھا تھا۔
پولٹری کمپنیوں کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کمیشن کے شوکاز نوٹس کے طریقہ کار میں غلطیاں ہیں۔ تاہم، کمپٹیشن کمیشن کی قانونی ٹیم، جس میں بیرسٹر اسد اللہ چٹھہ اور کمیشن کے قانونی مشیر، بیرسٹر عنبرین عباسی، حافظ محمد نعیم اور حسن رضا شامل تھے، نے حکم امتناع کو چیلنج کیا۔ عدالت نے کمپٹیشن کمیشن کے انکوائری کرنے اور شو کاز کرنے کےحق کو برقرار رکھا اور جامع فیصلہ دیا۔
کمپٹیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر کبیر سدھو نے مارکیٹ میں کمپٹیشن کے نہایت پیچیدہ مقدمات اور ریگولیٹری قانونی مسائل سے نمٹنے میں ادارے کی لیگل ڈیپاٹمنٹ کو مضبوط اور مستحکم کیا ہے تاکہ مقدمات کی فعال پیروی کی جا سکے۔ گزشتہ ایک سال میں کمپٹیشن اپیلٹ ٹریبونل (سی اے ٹی) ، ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ آف پاکستان سے 40 سے زیادہ مقدمات کے فیصلے ہوئے جس کے نتیجے میں قومی خزانے میں دس کوروڑ روپے مالیت کے جرمانوں کی وصولی ہوئی۔