اسلام آباد۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا ہے کہ میرا گزشتہ روز کا غصہ قابلِ جواز نہیں تھا مجھے اس پر افسوس ہے، جج ابوالحسنات ذوالقرنین ہمارے سامنے نہیں تھے مجھے اس طرح نہیں کہنا چاہیے تھا، ہم جو فیصلے میں نہیں لکھ سکتے وہ ہم عدالت میں کہہ بھی نہیں سکتے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ارباب محمد طاہر پر مشتمل ڈویژن بینچ نے اعظم سواتی کے جسمانی ریمانڈ کے آرڈرز کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ اعظم سواتی کے وکیل علی بخاری ایڈوکیٹ، پراسیکیوٹر جنرل اسلام آباد غلام سرور، لا افسر آئی جی آفس طاہر کاظم اور ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کی وضاحت عدالت میں پیش کی گئی جسے پڑھ کر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے جج کے مطابق تمام مقدمات کا ریکارڈ طلب کیا، اگر حتمی طور پر ساڑھے چھ بجے جسمانی ریمانڈ دیا گیا تو پھر بھی کیا غلط ہے کیونکہ جج کے مطابق 13 مقدمات تھے اور اس تمام عمل میں وقت تو لگتا ہے جج ابوالحسنات نے جو رپورٹ دی ہے ہم اُس پر مطمئن ہیں۔
علی بخاری ایڈوکیٹ نے کہا ہائی کورٹ میں پٹیشن فائل کی تھی جس سے پتا چلا کہ اعظم سواتی کے خلاف 12 مقدمات درج ہیں ہائیکورٹ میں جمع کرائی تفصیلات سے ایک ایف آئی آر کی معلومات جان بوجھ کر چھپائی گئیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا ایک بندے کا جسمانی ریمانڈ ہوا، ریمانڈ ختم ہونے پر دوسرا ریمانڈ لے لیا گیا جج کو کہنا چاہیے تھا کہ پانچ اکتوبر کا مقدمہ ہے مجھ سے ریمانڈ کیسے مانگ رہے ہیں؟ کیا پراسیکیوشن کا اعظم سواتی کا اب مزید جسمانی ریمانڈ مانگنے کا ارادہ ہے؟
پراسیکیوٹر جنرل نے کہا میں اس حوالے سے ابھی کوئی بیان نہیں دے سکتا۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے پوچھا کیا اعظم سواتی اب تمام مقدمات میں گرفتار ہیں؟ پراسیکیوٹر جنرل نے کہا تمام مقدمات میں جسمانی ریمانڈ ہو چکا تو وہ تمام مقدمات میں گرفتار ہیں۔ عدالت نے دوران سماعت پراسیکیوٹر جنرل کو مخاطب کر کے کہا رجسٹرار کی رپورٹ کے مطابق آپ کو نوٹس ہوئے تھے ، اب آپ نے دیکھنا ہے کس کے خلاف ایکشن لینا ہے۔
پراسیکیوٹر جنرل نے کہا میں نے آفس چیک کیا نوٹس موصول نہیں ہوا تھا ، کیا اس کا نام پتہ چل سکتا ہے جس نے میرے آفس میں نوٹس وصول کیا ؟ عدالت نے کہا رجسٹرار آفس اس حوالے سے انکوائری کرے گا۔ عدالت نے رجسٹرار ہائیکورٹ کو پراسیکیوٹر جنرل آفس سمیت فریقین کو نوٹسز موصول ہونے سے متعلق انکوائری کرنے کا حکم دے دیا۔