اسلام آباد: خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے تجویز کردہ 26 نکاتی آئینی ترمیم کا مسودہ منظور کر لیا، جس کے بعد یہ مسودہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس میں آئینی بینچ کی تشکیل اور چیف جسٹس کی تقرری کے طریقہ کار سمیت سپریم کورٹ کے ڈھانچے میں اہم تبدیلیوں کی تجویز دی گئی ہے۔
حکومت اور اتحادیوں کی طرف سے منظور کردہ آئینی ترمیم کے مسودے میں بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری تین سال کے لیے ہوگی، جو کہ سنیارٹی کی بجائے ایک تین رکنی پینل کے ذریعے ہوگی، اور اس کی تقرری 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔
مسودے کے مطابق، سپریم کورٹ میں آئینی بینچ بنایا جائے گا، جس کے ججوں کی تقرری جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا، اور بینچ میں تمام صوبوں سے مساوی تعداد میں جج مقرر کیے جائیں گے۔
تجویز کردہ آئینی ترمیم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اپنی مدت ختم ہونے کے بعد نئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری تک اپنے عہدے پر کام جاری رکھ سکے گا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق، مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں آرٹیکل 184 میں تبدیلی تجویز کی گئی ہے، جس کے تحت چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے کا اختیار ختم کیا جائے گا، مگر آرٹیکل 179 میں ترمیم کے تحت چیف جسٹس صرف پیٹیشن کے حوالے سے نوٹس جاری کر سکے گا۔
چیف جسٹس کی تقرری کے حوالے سے، مجوزہ ترمیم کے مسودے میں ایک نیا آرٹیکل 191 اے شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جس کے مطابق چیف جسٹس کی مدت تین سال ہوگی۔ چیف جسٹس 65 سال کی عمر میں ریٹائر ہو جائیں گے، اور اگر وہ 60 سال کی عمر میں چیف جسٹس بنے تو تین سال بعد اپنے عہدے سے ریٹائر ہوں گے۔
یہ تجویز دی گئی ہے کہ چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کرے گی، جو 12 اراکین پر مشتمل ہوگی، جس میں 8 ارکان قومی اسمبلی اور 4 ارکان سینیٹ شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹی سپریم کورٹ کے سینئر ترین تین ججوں میں سے ایک کو بطور چیف جسٹس نامزد کرے گی، اور اس کمیٹی کا اجلاس ان کیمرہ ہوگا۔
مزید یہ کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کی تقرری کے لیے پہلے چیف جسٹس اور سینئر ترین جج مل کر فیصلہ کرتے تھے، مگر اس ترمیم کے تحت ان دونوں کے ساتھ 15 سال تجربہ رکھنے والا ایک سینئر وکیل اور ایک وفاقی وزیر بھی شامل ہوگا، جس کا تعین وزیر اعظم کریں گے۔
سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کی تشکیل کے لیے تجویز دی گئی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت آئینی بینچ کی تشکیل کی جائے، جس کے ججوں کی تقرری جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا، اور تمام صوبوں سے برابری کی بنیاد پر ججوں کی تعیناتی کی جائے گی۔
آئینی مقدمات آئینی بینچ میں منتقل کیے جائیں گے، اور مجوزہ ترمیم کے تحت آرٹیکل 209 کے تحت عدلیہ کو کسی بھی آئینی معاملے پر حکم یا تشریح کا اختیار نہیں ہوگا۔
مزید یہ کہ آئینی ترمیم کے تحت آرٹیکل 215 میں تبدیلی کی بھی تجویز دی گئی ہے، جس کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل 13 ارکان پر مشتمل ہوگی، جس میں چیف جسٹس سپریم کورٹ، 4 سینئر ترین جج، ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس یا جج، وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل، اور پاکستان بار کونسل کے سینئر وکیل شامل ہوں گے۔
جوڈیشل کمیشن میں ججوں کی تقرری کے لیے 4 اراکین پارلیمنٹ بھی شامل ہوں گے، جن میں دو ارکان قومی اسمبلی اور دو سینیٹ سے ہوں گے۔ دو اراکین حکومت اور دو اپوزیشن کی طرف سے ہوں گے، جہاں حکومت کی جانب سے ایک سینیٹر اور ایک رکن قومی اسمبلی کا نام وزیر اعظم تجویز کرے گا، جبکہ اپوزیشن کی طرف سے دو نام اپوزیشن لیڈر پیش کریں گے۔
حکومت اور اتحادیوں کی جانب سے ججوں کی تقرری کے آرٹیکل 175 اے میں بھی تبدیلی کی تجویز دی گئی ہے، جس کے تحت جوڈیشل کمیشن اب ہائی کورٹ کے ججوں کی کارکردگی کا جائزہ بھی لے سکے گا۔
چیف الیکشن کمشنر اور آرٹیکل 63 اے سے متعلق بھی تجاویز پیش کی گئی ہیں، جس کے تحت چیف الیکشن کمشنر مدت ختم ہونے کے بعد نئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری تک 90 دن تک اپنے عہدے پر رہ سکتے ہیں۔
آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 4 میں ترمیم کے تحت صدر مملکت، کابینہ، اور وزیر اعظم کی طرف سے دی گئی ایڈوائس کو کسی عدالت یا ٹربیونل میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔
خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے منظور کردہ 26 ویں آئینی مسودے کے تحت آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجویز میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ میں پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف دیے گئے ووٹ کو شمار کیا جائے گا، مگر پارٹی سربراہ اس کے بعد کارروائی کا اختیار رکھیں گے۔
مجوزہ 26 ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں یہ بھی شامل ہے کہ آرٹیکل 111 کے تحت ایڈوکیٹ جنرل کے ساتھ ایڈوائزر بھی قانونی معاملات پر صوبائی اسمبلی میں بات کر سکیں گے۔