اسلام آباد ۔ایوان صدر میں فلسطین پر آل پارٹیز کانفرنس کا آغاز ہو چکا ہے، جس میں بڑی تعداد میں سیاسی جماعتوں کے رہنما اور سربراہان شریک ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف کی دعوت پر مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور فلسطین کے حوالے سے یہ کانفرنس منعقد کی جا رہی ہے۔کانفرنس میں صدر مملکت آصف زرداری، مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف، وزیراعظم شہباز شریف، جے یو آئی کے سربراہ فضل الرحمان، سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، اے این پی کے رہنما ایمل ولی خان، جماعت اسلامی کے حافظ نعیم، یوسف رضا گیلانی، اسحاق ڈار، بلاول بھٹو زرداری اور دیگر سیاسی جماعتوں کے سربراہان موجود ہیں۔
صدر آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس کانفرنس کے لیے وزارت خارجہ کا ڈرافٹ ہے اور یہ میرے دل کی آواز ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پی ایل او کے دفاتر دیکھے ہیں اور یاسر عرفات سے کئی بار ملاقات کی ہے۔ اسرائیل کی جارحیت میں اضافہ ہو رہا ہے، جو خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ اسرائیلی حملوں میں 41 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، اور اسرائیل لبنان، شام اور دیگر ممالک کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ عالمی برادری اسرائیل کو روکنے میں ناکام رہی ہے، اور فلسطین، خاص طور پر غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے، جس پر دنیا کو سخت نوٹس لینا چاہیے۔
مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نہتے فلسطینیوں پر جاری ظلم تاریخ کی بدترین مثال ہے۔ پورے شہر تباہ ہو چکے ہیں، ماو¿ں سے بچے چھینے جا رہے ہیں اور انہیں والدین کے سامنے شہید کیا جا رہا ہے۔ دنیا اس معاملے پر خاموش ہے، اور ایک طبقہ اسے انسانی مسئلے کے بجائے مذہبی مسئلہ سمجھتا ہے۔نواز شریف نے کہا کہ اقوام متحدہ اس معاملے میں بے بس ہے اور ان کی قراردادوں پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ کشمیر کے مسئلے کی طرح ہے، جہاں بھی قراردادوں پر عمل نہیں ہوا۔ ایسی اقوام متحدہ کا کیا فائدہ جو انصاف فراہم نہ کر سکے؟انہوں نے یاسر عرفات کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی ممالک کو مل کر فیصلہ کن اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ نواز شریف نے اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کی قوت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر آج نہیں تو کب استعمال کریں گے؟ یہ موقع شاید دوبارہ نہ ملے، اس لیے ہمیں مل کر مو¿ثر پالیسی بنانی ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی بے راہ روی کی وجہ عالمی طاقتیں ہیں، اور ان طاقتوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کب تک اسلامی دنیا اور فلسطینی عوام کے صبر کا امتحان لیں گے۔ ہمیں اپنی سفارشات تیار کرنے کے بعد اسلامی دنیا سے رابطہ کرنا چاہیے اور مو¿ثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ صرف ہم نہیں، بلکہ پورے پاکستان کے عوام چاہتے ہیں کہ ہم فیصلہ کریں، اور اس کام میں جلدی کی جانی چاہیے۔