اسلام آباد ۔ایک مسلمان ملک میں جہاں دیہاتی علاقوں میں ایک شرمناک عمل جاری ہے، یہ حیرت انگیز طور پر ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔تفصیلات کے مطابق انڈونیشیا کے دیہات کی غریب خواتین پیسے کے عوض مالدار غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ عارضی شادی کر رہی ہیں، جن میں زیادہ تر مرد مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ سرگرمی مغربی انڈونیشیا کے ایک مشہور سیاحتی مقام پنکاک (Puncak) میں ہو رہی ہے، جہاں سیاح خواتین سے عارضی طور پر شادی کرکے انہیں رقم دیتے ہیں، اور بعد میں چند دن بعد یہ شادیاں طلاق پر ختم ہو جاتی ہیں۔عارضی شادیاں کروانے کا پورا نظام باقاعدہ ایجنسیوں کے سپرد ہے جو انڈونیشیا کے کوٹہ بنگا ریزورٹ میں یہ کام کرتی ہیں۔
غیر ملکی ادارے کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عارضی شادیاں ایک منافع بخش مگر گھناو¿نا کاروبار بن چکا ہے، اور یہ سیاحت اور مقامی معیشت کی بہتری میں بھی کردار ادا کر رہا ہے۔ان عارضی شادیوں کو انڈونیشیا کے قانون نے بھی تسلیم نہیں کیا، کیونکہ یہ شادی کے بنیادی مقصد کو شدید نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔
انڈونیشیا کی ایک نوجوان خاتون کاہیا نے عارضی بیوی کے طور پر اپنے دردناک تجربات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ غیر ملکی میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے مشرق وسطیٰ کے سیاحوں سے 15 سے زیادہ شادیاں کی ہیں۔ ان کے پہلے عارضی شوہر (ایک 50 سالہ سعودی) نے انہیں 850 ڈالر (تقریباً 2 لاکھ 37 ہزار پاکستانی روپے) دیئے، لیکن جب ایجنسی کے اہلکاروں نے اپنا حصہ لیا تو انہیں صرف آدھا ملا۔ شادی کے پانچ دن بعد وہ شخص گھر واپس چلا گیا اور ان کے درمیان ‘طلاق’ ہو گئی۔
کاہیا نے انکشاف کیا کہ وہ ہر شادی سے 300 سے 500 ڈالر کے درمیان کماتی ہیں، جس سے بمشکل وہ اپنے گھر کا کرایہ ادا کر پاتی ہیں اور اپنے بیمار دادا دادی کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ کاہیا نے بتایا کہ اس کام کے باعث ان کے شوہر اور بیٹی دونوں ان سے علیحدہ ہو چکے ہیں۔