مریخ کی فضاؤں کا معمہ، جو کہ 4.6 بلین سالوں سے انسانیت کی توجہ کا مرکز ہے، شاید اب حل ہو گیا ہے۔ دو ماہرین ارضیات، جو ایم آئی ٹی سے وابستہ ہیں، نے ایک مقالے میں اس راز کی ممکنہ وضاحت پیش کی ہے۔
سائنس ایڈوانسز میں شائع ہونے والے اس تحقیقاتی مقالے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ مریخ کی گمشدہ فضاؤں کا بڑا حصہ ممکنہ طور پر سیارے کی مٹی کی تہوں میں موجود ہے۔
رپورٹ کے مطابق، جب مریخ پر پانی موجود تھا، تو وہ مائع چٹانوں کی خاص اقسام سے گزرتا تھا۔ یہ عمل سست رفتاری سے ہوا اور آہستہ آہست کاربن ڈائی آکسائیڈ کو فضا سے خارج کرتا رہا، جس کے نتیجے میں یہ گیس میتھین میں تبدیل ہو گئی۔ میتھین ایسی شکل ہے جو زمین کی مٹی کی سطح میں طویل مدت تک محفوظ رہ سکتی ہے۔
زمین پر بھی ایسے ہی عمل مختلف مقامات پر دیکھے گئے ہیں۔ محققین نے زمین پر چٹانوں اور گیسوں کے تعامل کے بارے میں اپنے تجربات کو استعمال کرتے ہوئے یہ قیاس کیا کہ مریخ پر بھی اسی طرح کے عمل رونما ہوئے ہوں گے۔
انہوں نے مریخ کی سطح کی مٹی کا تخمینہ لگاتے ہوئے اندازہ لگایا ہے کہ اس کی مٹی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا دباؤ تقریباً 1.7 بار ہوسکتا ہے، جو کہ دباؤ ناپنے کا ایک معیاری یونٹ ہے۔
سائنس ایڈوانسز میں شائع ہونے والے اس تحقیقاتی مقالے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ مریخ کی گمشدہ فضاؤں کا بڑا حصہ ممکنہ طور پر سیارے کی مٹی کی تہوں میں موجود ہے۔
رپورٹ کے مطابق، جب مریخ پر پانی موجود تھا، تو وہ مائع چٹانوں کی خاص اقسام سے گزرتا تھا۔ یہ عمل سست رفتاری سے ہوا اور آہستہ آہست کاربن ڈائی آکسائیڈ کو فضا سے خارج کرتا رہا، جس کے نتیجے میں یہ گیس میتھین میں تبدیل ہو گئی۔ میتھین ایسی شکل ہے جو زمین کی مٹی کی سطح میں طویل مدت تک محفوظ رہ سکتی ہے۔
زمین پر بھی ایسے ہی عمل مختلف مقامات پر دیکھے گئے ہیں۔ محققین نے زمین پر چٹانوں اور گیسوں کے تعامل کے بارے میں اپنے تجربات کو استعمال کرتے ہوئے یہ قیاس کیا کہ مریخ پر بھی اسی طرح کے عمل رونما ہوئے ہوں گے۔
انہوں نے مریخ کی سطح کی مٹی کا تخمینہ لگاتے ہوئے اندازہ لگایا ہے کہ اس کی مٹی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا دباؤ تقریباً 1.7 بار ہوسکتا ہے، جو کہ دباؤ ناپنے کا ایک معیاری یونٹ ہے۔