اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ عدالتی اصلاحات ان کی جماعت کا دیرینہ مطالبہ ہے، اور اس کے لیے آئینی عدالت کی ضرورت ہے۔ملک بھر کے وکلا کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ وکلا نے ہمیشہ آمروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کی جدوجہد نے مشرف کی آمریت کو ناکام بنایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ محترمہ شہید بی بی نے کہا تھا کہ اگر ججز نے عوامی تحریکیں نکالنی ہیں تو انہیں باقاعدہ سیاسی جماعت بنانی چاہیے، کیونکہ انہیں علم تھا کہ عدالت میں سیاست کا نتیجہ عوام کے نقصان کی صورت میں نکلے گا۔چیئرمین پی پی نے یہ بھی کہا کہ ان کی جماعت نے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کیے، اور آئینی عدالت کا مقصد آئینی مسائل کی وضاحت کرنا ہوگا۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت ججوں کی تعیناتی کا نظام بھی وضع کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں شہید بھٹو کے کیس میں انصاف کے حصول کے لیے 50 سال لگے، اور افتخار چوہدری نے جس بنیاد کی تشکیل کی، اسے ثاقب اور گلزار نے آگے بڑھایا۔بلاول بھٹو نے کہا کہ افتخار چوہدری کے بعد یہ روایت بن گئی ہے کہ اگر آپ کی رشتہ داری ہے تو آپ جج بن سکتے ہیں، ورنہ آپ اور عدلیہ الگ ہیں۔ انہوں نے ججز کی تقرری کے عمل میں شفافیت کو بےنظیر بھٹو کا مطالبہ قرار دیا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ججز کی تقرری چیف جسٹس کی مرضی سے ہوگی، اور یہ کہ ججز کا کام ڈیم بنانا یا کراچی کی حالت بدلنا نہیں ہے۔ عدالتوں میں بے شمار کیسز زیر التوا ہیں، اور ججز کی تعیناتی کے نظام کو بہتر بنانا ضروری ہے۔ بلاول بھٹو نے نوازشریف کو اس بات کی وضاحت کی کہ 58 ٹو بی کا غلط استعمال ہوگا، اور وہ خود اس کا شکار ہوئے۔ میثاق جمہوریت کے دستخط کے وقت افتخار چوہدری مشرف کے چیف جسٹس تھے، اور بےنظیر بھٹو نے اس وقت کہا تھا کہ ملک میں آئینی عدالتیں ہونی چاہئیں۔انہوں نے مزید کہا کہ وہ چارٹر آف ڈیموکریسی کے تحت وعدے کے مطابق ترمیم کرنے تک پیچھے نہیں ہٹیں گے، اور وکلا میں سے کچھ لوگ پھر “چیف تیرے جانثار” کا نعرہ لگائیں گے۔ عوام کو جلد اور فوری انصاف فراہم کرنا ان کی ترجیحات میں شامل ہے، اور اس کے لیے اقدامات کو یقینی بنانا ہوگا۔بلاول بھٹو نے کہا کہ وکلا جانتے ہیں کہ انصاف کی فراہمی میں کتنی مشکلات ہیں، اور اس کے لیے کسی ایک شخصیت کی بجائے عوام کے حق میں آواز اٹھانی چاہیے۔ انہیں یہ بھی علم ہے کہ وکلا کو مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے استعمال کیا جائے گا۔