اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے اجلاس میں سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے ایران کے ساتھ تجارت کے حوالے سے اہم انکشاف کیا ہے کہ ایران کے ساتھ موجودہ تجارت بڑی حد تک حوالہ اور ہنڈی کے طریقے سے ہو رہی ہے۔
اجلاس کی صدارت سینیٹر انوشہ رحمان نے کی، جس میں پاکستان اور ایران کے درمیان ترجیحی تجارت معاہدے پر غور کیا گیا۔ سینیٹر مانڈوی والا نے کہا کہ ایران کے ساتھ تجارت کے لیے ای فارم کا اجراء اسٹیٹ بینک نہیں کر رہا، اور تمام تجارت حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے کی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران کے ساتھ اسمگلنگ میں اضافہ خود ہماری جانب سے ہو رہا ہے اور کھانے پینے کی اشیا پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ بارٹر ٹریڈ میں بھی پابندی والی اشیا کی تجارت کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ ایران سے درآمدات سے 20 ارب روپے کسٹمز ڈیوٹی حاصل ہو رہی ہے۔
پاکستان کا پہلا آزاد تجارتی معاہدہ سری لنکا کے ساتھ 2005 میں ہوا
اجلاس میں وزارت تجارت کے حکام نے بتایا کہ پاکستان کا پہلا آزاد تجارتی معاہدہ سری لنکا کے ساتھ 2005 میں ہوا، جس میں تجارتی تنازعات کے حل کے لیے مشترکہ کمیٹی قائم کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔ اس معاہدے کے تحت دو چیمبرز کو نامزد کرنے کا بھی کہا گیا تھا، لیکن 2011 سے سری لنکا سے چیمبر کے نام کے مطالبے پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ سری لنکا کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ کمرشل اور قانونی طریقہ کار کے تحت ہے۔
سینیٹر انوشہ رحمان نے وزارت تجارت سے درخواست کی کہ سری لنکا کے ساتھ معاملہ جلد حل کیا جائے۔ حکام نے جواب دیا کہ ہم سری لنکا پر دباؤ نہیں ڈال سکتے اور سری لنکا نے بل آف ایکسچینج کے بجائے ایل سی کے ذریعے تجارت کرنے کی درخواست کی ہے۔
سینیٹر انوشہ رحمان نے پوچھا کہ کیا یہ معلومات ایکسپورٹرز کو فراہم کی گئی ہیں؟ جس پر حکام نے بتایا کہ یہ معلومات ایک ماہ پہلے ملی ہیں۔ سینیٹر رحمان نے وزیر تجارت سے ہدایات لینے کی تجویز دی اور سوال اٹھایا کہ اتنی اہم معلومات وزارت تجارت نے ایک ماہ میں کیوں نہیں فراہم کیں۔