اسلام آباد: سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کا محفوظ شدہ فیصلہ سنا دیا ہے، جس میں عدالت نے حکومت کی اپیلیں منظور کر لی ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں جسٹس اطہر من اللہ کے اضافی نوٹ کو بھی شامل کیا گیا ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی اپیل سننے کے قابل نہیں ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کے اضافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نجی فریقین کی انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کے لیے منظور کی جاتی ہیں، جبکہ وفاقی حکومت کو انٹرا کورٹ اپیل دائر کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ اپیل صرف متاثرہ فریق ہی دائر کر سکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے متفقہ فیصلہ جاری کرتے ہوئے نیب ترامیم کیس میں حکومت کی اپیلیں منظور کر لی ہیں اور نیب ترامیم کو درست قرار دے دیا ہے۔ عدالت نے پی ڈی ایم حکومت کے دور میں کی گئی نیب ترامیم کو بحال کر دیا ہے۔ فیصلے میں سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور مستعفی جج اعجاز احسن کا اکثریتی فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ ترامیم بحال کرنے کا فیصلہ متفقہ ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے فیصلے میں کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے اضافی نوٹس تحریر کیے ہیں۔ سپریم کورٹ کے متفقہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان اور سپریم کورٹ کے ججز کا کام پارلیمنٹ کے نگراں کا نہیں ہے۔ آئینی اداروں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے اور پارلیمنٹ کی قانون سازی کو کالعدم قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔ مگر یہ بھی نہیں کہ آئین کے خلاف قانون سازی کو کالعدم قرار نہیں دیا جائے گا۔ بانی پی ٹی آئی ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ نیب ترامیم آئین کے مخالف تھیں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے فیصلے میں کہا کہ ترامیم بحال کرنے کی وجوہات الگ تحریر کریں گے۔ وفاقی حکومت نے نیب ترامیم کیس کے فیصلے پر انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی، جس پر سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کی اپیل پر نیب ترامیم کو دو ایک کی اکثریت سے کالعدم قرار دیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے 6 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
عمران خان کی جانب سے نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی تھی، جس میں جسٹس امین الدین خان، جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بھی شامل تھے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس میں انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کا تحریری فیصلہ جاری کیا۔ 16 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ نیب قانون پرویز مشرف نے اقتدار میں آنے کے 34 دن بعد بنایا تھا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے آئینی جمہوری نظام کو ختم کر کے اپنے لیے قانون سازی کی، اور اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو ہٹایا جو غیر آئینی اقدام کی توسیع نہیں کر رہے تھے۔ مشرف دور کے قانون کے دیباچے میں لکھا گیا کہ نیب قانون کا مقصد بدعنوانی کا خاتمہ ہے۔ جن سیاستدانوں یا جماعتوں نے مشرف کو جوائن کیا انہیں مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ نیب قانون کا اصل مقصد سیاستدانوں کے خلاف سیاسی انتقام یا انجینئرنگ تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ سپریم کورٹ کو قانون سازی کو جلد ختم کرنے کے بجائے اسے بحال رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر کسی قانون کی دو تشریحات ہوں تو وہ تشریح تسلیم کی جائے گی جو قانون کے حق میں ہو۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ درخواست اور سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کے مطابق نہیں۔ موجودہ مقدمے میں بھی ترامیم غیر آئینی ہونے کے حوالے سے ہم قائل نہیں ہو سکے۔ ان ترامیم میں سے بہت سی ترامیم کے خالق عمران نیازی خود تھے، اور بانی پی ٹی آئی نے نیک نیتی سے درخواست دائر نہیں کی۔