اسلام آباد: سیکرٹری پانی و بجلی نے سینیٹ کی کمیٹی کے اجلاس میں آئی پی پیز کے معاہدے پیش کرنے سے انکار کر دیا۔
سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے ڈیولوشن کے اجلاس کی صدارت سینیٹر زرقاء تیمور نے کی، جس میں نجی بجلی گھروں (آئی پی پیز) کے معاہدات پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔
کمیٹی کی چئیرپرسن نے سوال کیا کہ آئی پی پیز کے ساتھ کیا معاہدے طے پائے ہیں اور انہیں کتنی ادائیگیاں کی گئی ہیں؟
سیکرٹری پانی و بجلی نے جواب دیا کہ آئی پی پیز ایک چھپی ہوئی بیماری کی مانند ہیں، ہم ان معاہدات کو کمیٹی کو نہیں دے سکتے، ہمیں یہ تفصیلات عوامی سطح پر نہیں فراہم کی جا سکتیں۔
سینیٹ کمیٹی کا آئی پی پیز کا فارنزک آڈٹ کرانے کا حکم
چئیرپرسن کمیٹی نے کہا کہ آپ ان معاہدات کو فراہم کیوں نہیں کر رہے؟ عوام کے ٹیکس پیسوں کا حق ہے کہ انہیں پتہ چل سکے کہ ملک کے وسائل کیسے خرچ ہو رہے ہیں۔
یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے حکومت نے چینی بیچنے والوں کو سبسڈی فراہم کی تھی۔ آپ آئی پی پیز کا فارنزک آڈٹ کیوں نہیں کروا رہے؟
آئی پی پیز کو بند کریں، انہوں نے بہت پیسہ کما لیا ہے، اور اکثر آئی پی پیز کے مالکان مقامی ہیں، مثال کے طور پر لاہور کا سب سے بڑا سرمایہ کار ایک پولیس افسر ہے۔
وزارت پانی و بجلی کے حکام نے وضاحت کی کہ وہ آئی پی پیز کے مسئلے پر سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں۔
آئی پی پیز کو فیول سمیت تمام ضروری سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، اور فی الحال 16 سی پیک منصوبے، 6 پاکستان ایٹامک انرجی کمیشن منصوبے، اور 60 کے قریب نجی منصوبے فعال ہیں۔
فنکشنل کمیٹی نے تمام 104 آئی پی پیز کے معاہدات، اسٹینڈرڈ کنٹریکٹس، اور کیپسیٹی پیمنٹس کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔