ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نظام شمسی کا ساتواں سیارہ یورینس اتنا غیر معمولی اور پراسرار نہیں ہے جتنا کہ پہلے سمجھا گیا تھا۔
یونیورسٹی کالج لندن (یو سی ایل) کے محققین کے مطابق، یورینس کے آس پاس موجود عجیب و غریب ماحول دراصل ایک طاقتور شمسی طوفان کا نتیجہ ہو سکتا ہے جو اس وقت رونما ہوا تھا جب ناسا کا خلائی جہاز وائجر 2 یورینس کے قریب سے گزر رہا تھا۔
1986 میں وائجر 2 نے یورینس کے قریب سے پرواز کی اور اس سیارے کی پہلی جھلک پیش کی تھی، لیکن اس کے بعد سے کوئی اسپیس کرافٹ یورینس تک نہیں پہنچ سکا۔ اس تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر ولیم ڈن کا کہنا تھا کہ ہم جو کچھ بھی یورینس کے بارے میں جانتے ہیں، وہ صرف وائجر 2 کے دو روزہ مشن کی بنیاد پر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یورینس کے عجیب و غریب رویے کی وضاحت اس وقت کے خلائی موسم کے مطابق کی جا سکتی ہے، جب وائجر 2 وہاں سے گزر رہا تھا اور ایک طاقتور شمسی طوفان رونما ہو رہا تھا۔
ان نتائج کی روشنی میں محققین یہ تجویز کر رہے ہیں کہ یورینس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک نیا مشن بھیجا جائے، تاکہ جب وہاں شمسی طوفان نہ ہو، اس وقت سیارے کی حقیقت کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
یونیورسٹی کالج لندن (یو سی ایل) کے محققین کے مطابق، یورینس کے آس پاس موجود عجیب و غریب ماحول دراصل ایک طاقتور شمسی طوفان کا نتیجہ ہو سکتا ہے جو اس وقت رونما ہوا تھا جب ناسا کا خلائی جہاز وائجر 2 یورینس کے قریب سے گزر رہا تھا۔
1986 میں وائجر 2 نے یورینس کے قریب سے پرواز کی اور اس سیارے کی پہلی جھلک پیش کی تھی، لیکن اس کے بعد سے کوئی اسپیس کرافٹ یورینس تک نہیں پہنچ سکا۔ اس تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر ولیم ڈن کا کہنا تھا کہ ہم جو کچھ بھی یورینس کے بارے میں جانتے ہیں، وہ صرف وائجر 2 کے دو روزہ مشن کی بنیاد پر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یورینس کے عجیب و غریب رویے کی وضاحت اس وقت کے خلائی موسم کے مطابق کی جا سکتی ہے، جب وائجر 2 وہاں سے گزر رہا تھا اور ایک طاقتور شمسی طوفان رونما ہو رہا تھا۔
ان نتائج کی روشنی میں محققین یہ تجویز کر رہے ہیں کہ یورینس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک نیا مشن بھیجا جائے، تاکہ جب وہاں شمسی طوفان نہ ہو، اس وقت سیارے کی حقیقت کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔