اسلام آباد: سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے وکیل سید مصطفین کاظمی اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے بینچ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ باہر 500 وکلا موجود ہیں، اور انہوں نے چیلنج کیا کہ دیکھتے ہیں کیسے ہمارے خلاف فیصلہ آتا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے انہیں کمرہ عدالت سے باہر نکالنے کا حکم دیا۔
بدھ کے روز سماعت کے دوران، جب پی ٹی آئی کے وکیل مصطفین کاظمی روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے ان سے پوچھا کہ آپ کس کی طرف سے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ وہ پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے انہیں بیٹھنے کی ہدایت کی، اور اگر وہ نہیں بیٹھتے تو پولیس کو بلانے کی بات کی۔ مصطفین کاظمی نے جواب دیا کہ آپ کر بھی یہی سکتے ہیں، جبکہ باہر ہمارے 500 وکیل موجود ہیں۔
مصطفین کاظمی نے بینچ میں شامل دو ججز، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل، پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ 5 رکنی لارجر بینچ غیر آئینی ہے، اور ان کی شمولیت بھی غیر آئینی ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی وکیل کو کمرہ عدالت سے باہر نکالنے کا حکم دیا اور عدالت میں موجود پولیس اہلکاروں کو ہدایت کی کہ اس شخص کو باہر نکالیں۔
چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے کہا، “یہ کیا ہو رہا ہے؟ آپ آئیں اور ہمیں بے عزت کریں، ہم یہ ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔” علی ظفر نے جواب دیا کہ وہ تو آرام سے بحث کر رہے تھے اور چیف جسٹس بھی آرام سے سن رہے تھے۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ “ججز سے بدتمیزی کا یہ طریقہ اب عام ہوگیا ہے، کمرہ عدالت سے یوٹیوبرز باہر جاکر یہ سب شروع کر دیں گے۔”