راولپنڈی ۔ تحریک انصاف کے سابق چیئرمین نے کہا ہے کہ جنرل فیض حمید ہمارا اثاثہ ہیں جنہیں ضائع کردیا گیا میرے منع کرنے کے باوجود جنرل باجوہ نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے جنرل فیض کو ہٹایا اگر 9 مئی جنرل فیض نے کروایا تو اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں ۔
القادر ٹرسٹ ریفرنس کی سماعت کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اچھا ہے فوج انٹرنل احتساب کر رہی ہے اگر یہ احتساب کر ہی رہے تو پھر سب کا کریں خواجہ آصف نے کہا ہے کہ جنرل فیض کا 9 مئی کے واقعات سے براہ راست تعلق ہے
لیکن اصل میں سارا معاملہ میری گرفتاری سے شروع ہوا اس کی تفتیش کیوں نہیں کی جا رہی ہے اگر 9 مئی جنرل فیض نے کروایا تو اس کی تحقیقات ہونی چاہئے 9 مئی دراصل لندن پلان کا حصہ تھا انہوں نے کہا کہ جدھر جدھر اگ لگی ہے
وہاں کی سی سی ٹی وی فوٹیجز غائب ہیں ہماری سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے لائیں اور ہمیں قصوروار ثابت کریں انہوں نے کہا کہ جس نے میری گرفتاری کا آرڈر دیا وہی سازش میں ملوث ہے چیف الیکشن کمشنر، چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس اسلام اباد ہائی کورٹ عامر فاروق لندن پلان کا حصہ تھے
قاضی فائز عیسی کو فیض اباد کمیشن اور بھٹو کا کیس یاد آگیا لیکن ہماری پٹیشن نہیں سن رہے ان کا مسئلہ یہ ہے 8 فروری کو تحریک انصاف الیکشن جیت گئی چیف جسٹس اور الیکشن کمیشن اب فراڈ الیکشن کو چھپا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ راولپنڈی کے سابق کمشنر نے ایک ایک بات ٹھیک کہی تھی یہ چاہتے ہیں تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہ ملیں اور یہ آئینی ترمیم کر سکیں یہ اب تیسری دفعہ آئین شکنی کر رہے ہیں
پہلے 90 روز میں انہوں نے الیکشن نہیں کرائے پھر اکتوبر میں بھی الیکشن سے بھاگ گئے اب یہ تیسری دفعہ آئین میں ترمیم کرنے جا رہے ہیں لیکن اب ہم سڑکوں پر نکلنے لگے ہیں پارٹی کو تیار رہنے کو کہا ہے خواجہ آصف نے کہا ہے جنرل باجوہ ایکسٹینشن چاہتا تھا یہ میرے موقف کی تائید ہے
جنرل باجوہ نے اپنی ایکسٹینشن کے لئے میری حکومت گرائی نواز شریف اور شہباز شریف کی شرط تھی کہ جنرل فیض کو ہٹائیں حالانکہ جنرل فیض کو ہٹانے پر میری جنرل باجوہ سے سخت تلخی ہوئی تھی
آئی بی کی رپورٹس تھیں کہ موجودہ سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان ہر وقت جنرل باجوہ کے پاس بیٹھا رہتا تھا جنرل فیض کو اس لئے میں نہیں ہٹانا چاہتا تھا کیونکہ وہ طالبان اور افغان حکومت کے ساتھ انگیج تھا وہ سنہری موقع تھا
پاکستان میں دہشت گردی ختم کرنے کا جنرل فیض کے طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات تھے وہ 3 سال تک طالبان کے ساتھ مذاکرات کرتا رہا جبکہ میں بار بار جنرل باجوہ کو کہتا رہا جنرل فیض کو نہ ہٹائیں لیکن جنرل باجوہ نے اپنی ایکسٹینشن کے لئے جنرل فیض کو ہٹایا اور آئی ایس ائی کو تحریک انصاف کے پیچھے لگا دیا
انہوں نے کہا کہ جنرل فیض حمید ہمارا اثاثہ تھے انہیں ضائع کر دیا گیا ہمیں کہتے ہیں کہ ہم نے طالبان کے ساتھ معاہدے کئے اور انہیں واپس لا کر ٹھہرایا اگر ایسی بات ہے تو اب کراس بارڈر دہشت گردی کیوں ہو رہی ہے