اسلام آباد(کورٹ رپورٹر) پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنے کے کیس میں جسٹس امین اور جسٹس نعیم نے اختلافی فیصلہ جاری کردیا اور کہا کہ پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے لئے پہلے آئین کو معطل کرنا ہوگا
اختلافی فیصلے میں کہاگیا ہے کہ پی ٹی آئی موجودہ کیس میں فریق نہیں تھی ، ایسا فیصلہ جو آئین کے مطابق نہ ہو کوئی بھی آئینی ادارہ عملدرآمد کا پابند نہیں ہے
سپریم کورٹ میں دوران سماعت کچھ ججز نے یہ سوال بھی پوچھا کہ کیا مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جا سکتی ہیں؟ جس پر کوئی وکیل مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے پر متفق نہیں ہوا
پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی فہیم خان سعودی عرب میں گرفتار
جبکہ کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے بھی دلائل میں واضح کہا کہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے سے اتفاق نہیں کرتا ہوں۔
80 اراکین اسمبلی اکثریتی فیصلے کی وجہ سے اپنا مؤقف تبدیل کرتے ہیں تو وہ نااہل بھی ہو سکتے ہیں۔
29 صفحات پر مشتمل اختلافی فیصلہ میں کہاگیا ہے کہ مختصر فیصلہ سنانے کے بعد 15 دنوں کا دورانیہ ختم ہونے کے باوجود اکثریتی فیصلہ جاری نہ ہو سکا
تفصیلی فیصلے میں تاخیر کے باعث ہم مختصر حکمنامے پر ہی اپنی فائنڈنگ دے رہے ہیں۔
ثابت شدہ حقیقت ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا. حتیٰ کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی موجودہ کیس میں فریق نہیں تھی اسے ریلیف دینے کیلئے آرٹیکل 175 اور 185 میں تفویض دائرہ اختیار سے باہر جانا ہو گا۔
پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کیلئے آئین کے آرٹیکل 51، آرٹیکل 63 اور آرٹیکل 106 کو معطل کرنا ہو گا.اختلافی نوٹ میں سنی اتحاد کونسل کی جانب سے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے چار خطوط بھی شامل کئے گئے ۔
فیصلے میں کہاگیا کہ آزاد امیدواروں کو الیکشن کمیشن قومی اسمبلی اور تینوں صوبائی اسمبلیوں میں طریقہ کار مکمل ہونے کے بعد تسلیم کیا.
39 ا 41 اراکین اسمبلی جس کا مختصر اکثریتی فیصلے میں حوالہ دیا گیا ہے یہ معاملہ کبھی متنازع ہی نہیں تھا۔کسی عدالتی کارروائی میں یہ اعتراض نہیں اٹھایا گیا کہ اراکین نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کیا۔
تحریکِ انصاف الیکشن کمیشن اور نہ ہی ہائیکورٹ میں فریق تھی جبکہ سپریم کورٹ میں فیصلہ جاری ہونے تک بھی پی ٹی آئی فریق نہیں تھی
13 رکنی فل کورٹ کی آٹھ سماعتوں میں سب سے زیادہ وقت کا استعمال ججز کے سوالات پر ہوا۔
ایسا فیصلہ جو آئین کے مطابق نہ ہو کوئی بھی آئینی ادارہ عملدرآمد کا پابند نہیں ہے، 80 اراکین اسمبلی اکثریتی فیصلے کی وجہ سے اپنا مؤقف تبدیل کرتے ہیں تو وہ نااہل بھی ہو سکتے ہیں