راولپنڈی ۔گزشتہ 10 سال کے دوران پاکستان کی کسی جیل میں کسی بھی سزائے موت کے مجرم کو پھانسی نہیں دی گئی۔
پھانسی کی سزاؤں پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے جلادوں کی مزدوری ختم ہو چکی ہے، اور 90 فیصد جلادوں کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ اس وقت صرف 10 فیصد جلاد باقی ہیں، لیکن وہ بھی مستقل ملازمت پر نہیں بلکہ دیہاڑی کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے آخری اپیلیں مسترد ہونے کے باوجود اس وقت 47 مجرم پھانسی کی سزا پر عملدرآمد کے منتظر ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کی رحم کی اپیلیں صدر پاکستان کے پاس فیصلے کے انتظار میں ہیں، جبکہ درجن بھر مجرموں کی نظرثانی اپیلیں بھی دائر کی جا چکی ہیں۔
پھانسی نہ دیے جانے کے باوجود جیلوں، خاص طور پر اڈیالہ جیل میں، پھانسی گھاٹوں کی صفائی اور دیکھ بھال کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اڈیالہ جیل میں سزائے موت کے 231 مجرم قید ہیں، جن میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ ان میں سے 183 کی اپیلیں ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ میں اور 48 اپیلیں سپریم کورٹ میں زیر التواء ہیں، جبکہ 13 مجرموں کی رحم کی اپیلیں صدر مملکت کے فیصلے کی منتظر ہیں۔
شان زیب خان ایڈووکیٹ کے مطابق، پاکستان نے اقوام متحدہ، یورپی یونین اور دولت مشترکہ جیسے مختلف عالمی فورمز پر پھانسی کی سزاؤں کے حوالے سے معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں، اور یہی عالمی قوانین پھانسی کی سزاؤں پر عملدرآمد میں رکاوٹ ہیں۔
پاکستان میں ویسے بھی پھانسی کی سزاؤں پر عملدرآمد کی شرح کم رہی ہے۔