اسلام آباد ۔سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم اسحاق کی درخواست ضمانت قبل از گرفتاری پر فیصلہ سناتے ہوئے ملزم کو گرفتار کرکے جیل حکام کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔
قتل کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم ایک دن وزیرِ اعظم ہاؤس میں ہوتا ہے اور دوسرے دن جیل میں، کوئی نہیں جانتا کہ وزیراعظم کتنے دن کے لیے رہیں گے۔ ریاست حکومت گرانے اور لانے میں مصروف ہے، اور تمام ادارے سیاسی مخالفین کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، ایسی صورتحال میں ریاست کی حالت کیا ہوگی؟ ججز نے یہ بھی کہا کہ لوگوں کو اداروں پر یقین نہیں رہا، اور وہ چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ تمام کام کرے۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی سربراہی جسٹس جمال خان مندوخیل نے کی، جس میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس ملک شہزاد بھی شامل تھے۔ اس بینچ نے قتل کیس کے ملزم اسحاق کی درخواست ضمانت کی سماعت کی۔
دورانِ سماعت، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ 2017 سے یہ کیس سپریم کورٹ میں زیرالتوا ہے، جبکہ ریاست حکومت گرانے اور لانے میں مشغول ہے اور تمام ادارے سیاسی مخالفین کے پیچھے پڑے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ریاست کی حالت کو کیا بیان کریں، 3 وزرائے اعظم مارے گئے، ان کے کیسز کا کیا ہوا؟ بلوچستان میں ایک سینئر جج بھی مارا گیا، لیکن کچھ نہیں ہوا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسی میں کچھ کرنے کی خواہش نہیں ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ سندھ اور پنجاب میں پولیس کی تفتیش بہت ناقص ہے، اور جب تک ریاستی ادارے سیاسی انجینئرنگ میں مشغول رہیں گے، حالات نہیں بدلیں گے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر آئین پر عمل کیا جاتا تو آج یہ حالات نہ ہوتے۔ انہوں نے وزیراعظم کے قتل کے کیس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 40 سال بعد اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ منتخب وزیراعظم کا قتل ہوا تھا، اور وزیراعظم کے قتل سے بڑا جرم اور کیا ہوسکتا ہے؟ ان کے مطابق، کسی کو ذمہ دار قرار دے کر سزا دی جانی چاہیے تھی۔
جسٹس ملک شہزاد نے کہا کہ جس ملک میں وزیراعظم کا یہ حال ہو، وہاں عام شہری کی کیا حالت ہوگی؟ انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم ایک دن وزیرِ اعظم ہاؤس میں ہوتا ہے اور دوسرے دن جیل میں، اور کسی کو یہ نہیں پتا کہ وزیراعظم کتنے دن رہیں گے۔
اس کے بعد سپریم کورٹ نے پولیس کو حکم دیا کہ ملزم اسحاق کو گرفتار کر کے جیل حکام کے حوالے کیا جائے۔ واضح رہے کہ ملزم اسحاق پہلے ضمانت حاصل کرنے کے بعد فرار ہوگیا تھا۔