دمشق۔شام میں صرف چار دنوں کے دوران، حلب سے حماۃ، پھر حمص اور بالآخر دمشق میں اپنی فتح کے جھنڈے گاڑنے والے ابو محمد الجولانی نے بشار الاسد کی 24 سالہ حکمرانی کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان کی غیرمعمولی قائدانہ صلاحیتوں نے انھیں عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔
حیات تحریر الشام کی قیادت:
ابو محمد الجولانی کی سربراہی میں حیات تحریر الشام (HTS) شام میں حزب اختلاف کی سب سے مضبوط مسلح جماعت بن چکی ہے، جو شامی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہوئی ہے۔ بشار الاسد حکومت کی متعدد کوششیں، جن میں ان کی موت کی جھوٹی خبریں شامل تھیں، کارگر ثابت نہ ہو سکیں۔
پس منظر اور سفر:
ابو محمد الجولانی، جن کا اصل نام احمد حسین الشارع ہے، 1982 میں سعودی عرب کے شہر ریاض میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے والد پیٹرولیم انجینئر تھے۔ 1989 میں ان کا خاندان شام منتقل ہوا اور دمشق کے قریب آباد ہوا۔ 2003 میں وہ عراق گئے اور امریکی حملے کے خلاف القاعدہ میں شامل ہوگئے۔
2006 میں امریکی فوج نے انھیں گرفتار کیا، لیکن 5 سال بعد رہائی ملی۔ اس کے بعد وہ شام لوٹے اور القاعدہ کے لیے النصرہ فرنٹ کی بنیاد رکھی۔
داعش سے علیحدگی:
2013 میں ابو بکر البغدادی نے داعش کو القاعدہ سے الگ کرنے کا اعلان کیا اور النصرہ فرنٹ کو بھی داعش میں ضم کرنے کی کوشش کی، لیکن الجولانی نے اپنی وفاداری القاعدہ کے ساتھ برقرار رکھی اور داعش سے راستے جدا کر لیے۔
ادلب میں اثر و رسوخ:
2016 میں جب حلب پر حکومت نے دوبارہ قبضہ کیا تو باغی ادلب کی طرف منتقل ہو گئے۔ الجولانی نے ادلب میں اپنی تنظیم کو جبہت فتح الشام کے نام سے منظم کیا اور متعدد چھوٹے جنگجو گروپوں کو ساتھ ملا کر حیات تحریر الشام تشکیل دی۔
مقاصد اور نظریہ:
الجولانی کی تنظیم کا مقصد شام کو اسد حکومت اور ایرانی ملیشیا کے اثر و رسوخ سے آزاد کرا کر ایک اسلامی جمہوری ریاست کا قیام ہے۔ ان کا یہ وعدہ کہ اسلامی حکومت کے قیام کے بعد اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا، ان کے نظریے کی مقبولیت میں اضافہ کرتا ہے۔
عالمی تناظر:
الجولانی نے عالمی سطح پر اپنی قبولیت بڑھانے کے لیے داعش کے برعکس ایک مختلف حکمت عملی اپنائی اور خلافت کے عالمی نعرے سے ہٹ کر صرف شام میں اسلامی حکومت پر توجہ مرکوز کی۔ تاہم، حیات تحریر الشام کو اقوام متحدہ، ترکیہ، امریکا، اور یورپی یونین نے “دہشت گرد” تنظیموں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔
مستقبل کے عزائم:
ابو محمد الجولانی کی قیادت میں حیات تحریر الشام نہ صرف شامی حکومت بلکہ عالمی طاقتوں کے لیے بھی ایک اہم موضوع بنی ہوئی ہے، اور ان کے اقدامات شام کی سیاسی صورتحال پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔