پشاور۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی آڈیو اور ویڈیو لیک ہونے کے خدشے کے پیش نظر پارٹی کی جانب سے اجلاسوں میں موبائل فون لانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ تاہم، اس کے باوجود بشریٰ بی بی کی ایک آڈیو منظر عام پر آ گئی ہے۔
پی ٹی آئی کے ذرائع کے مطابق، بشریٰ بی بی کی ویڈیو یا آڈیو لیک ہونے کے خطرات کے پیش نظر ان کے اجلاسوں میں شرکت اور خطاب کے دوران خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں موبائل فون لانے پر پابندی عائد کی گئی تھی، اور پچھلے اجلاسوں میں پارٹی کے عہدیداروں اور ممبران سے موبائل فون بھی ضبط کیے گئے۔
آڈیو میں سنا جا سکتا ہے کہ بشریٰ بی بی پارٹی کے رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ “میں بانی پی ٹی آئی کا پیغام لائی ہوں، کل کوئی یہ نہ کہے کہ بانی کا پیغام ہمارے پاس نہیں پہنچا، ہر ایک کے پاس ان کا پیغام پہنچا دیا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ ایم پی اے پانچ ہزار اور ایم این اے دس ہزار افراد کا قافلہ لائے گا، اور گرفتار ہونے والے افراد کے لیے حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
بشریٰ بی بی نے کہا کہ “تمام عہدیدار اپنی متبادل تیار کریں، اگر کوئی گرفتار ہو جاتا ہے تو پھر قافلہ متبادل رہنما کی قیادت میں آگے بڑھے گا، بعد میں یہ نہیں سنا جائے گا کہ ‘گرفتار ہو گئے’ یا ‘شلنگ ہو گئی’۔” انہوں نے یہ بھی کہا کہ عہدیداروں کو گاڑیوں کے اندر کی تصاویر اور ویڈیوز بنانی ہوں گی، اور یہ ویڈیوز پارٹی کے ساتھ شیئر کی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر انٹرنیٹ کام کر رہا ہو تو یہ ویڈیوز ملکی اور غیر ملکی میڈیا کو پہنچائی جائیں گی، اور جو لوگ ثبوت نہیں دیں گے، انہیں آئندہ ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔
بشریٰ بی بی نے کہا کہ “یہ صرف بانی کا نہیں، بلکہ ملک کی آزادی کی جنگ ہے، انٹرنیشنل میڈیا کو اپنے ساتھ رکھنا ضروری ہے۔ 24 نومبر آپ کی بانی اور ملک سے وفاداری کا امتحان ہے، اور جو سچا اور غیرت مند ہوگا، وہ بانی کا ساتھی بنے گا۔” انہوں نے مزید کہا کہ “جب بھی گروپنگ ہوگی، تو میر جعفر اور میر صادق سر اٹھا کر آ جاتے ہیں۔”
اس کے علاوہ، بشریٰ بی بی نے پارٹی قیادت کو وارننگ دی کہ اگر 24 نومبر کے احتجاج میں اختلافات کی وجہ سے کوئی رکاوٹ آئی تو اس کے سخت نتائج ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کا تیسرا دور حکومت ہے، جس میں پرویز خٹک، محمود خان اور اب علی امین گنڈا پور وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وزارت اعلیٰ اور وزیروں کی کرسیاں بدلتی رہیں گی، لیکن اختلافات کا کوئی جواز نہیں ہونا چاہیے۔ “ہر شخص ہر وقت سیاسی عہدوں پر نہیں رہتا، عہدے اور کرسیاں بدلتی رہتی ہیں، مگر جماعت کا اتحاد برقرار رہنا چاہیے۔”