اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اعتراف کیا ہے کہ لبنان میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کو شہید کرنے والے حملے اور لبنان میں ستمبر میں ہونے والے پیجر اور واکی ٹاکی دھماکے اسرائیل نے کیے تھے۔
ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق، نیتن یاہو نے کابینہ کے ایک اجلاس میں اس بات کا اعتراف کیا کہ حزب اللہ کے خلاف کیے گئے پیجر اور واکی ٹاکی حملوں میں اسرائیل کا ہاتھ تھا۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ حسن نصراللہ کو نشانہ بنانے کے لیے یہ کارروائی محکمہ دفاع کے سینئر عہدیداروں کی مخالفت کے باوجود کی گئی تھی، اور اس کے ذمہ دار سیاسی حکام ہیں جو اسرائیلی حکومت میں موجود ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نیتن یاہو نے اس اعتراف کے دوران اسرائیلی فوج اور انٹیلیجنس کے سربراہ کے ساتھ ساتھ حال ہی میں برطرف ہونے والے وزیردفاع یوو گیلنٹ پر زیادہ تنقید نہیں کی۔ واضح طور پر اسرائیل نے 16 ستمبر کو لبنان میں حزب اللہ کے زیر استعمال پیجر اور واکی ٹاکی کے دھماکوں کی ذمہ داری کھل کر تسلیم نہیں کی تھی، لیکن نیتن یاہو کے اعتراف نے اس واقعے کی حقیقت کو واضح کر دیا۔
حزب اللہ نے 28 ستمبر کو تصدیق کی تھی کہ ایک روز قبل ہونے والے حملے میں حسن نصراللہ شہید ہوگئے ہیں۔ حزب اللہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ ان کا جسد خاکی تباہ شدہ عمارت کے ملبے سے نکالا گیا، اور اسرائیل کی بمباری کے باوجود ان کے جسم پر کسی بڑے زخم کا نشان نہیں تھا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی شہادت دھماکے کی شدت کی وجہ سے ہوئی تھی۔
اسرائیل نے دعویٰ کیا تھا کہ حسن نصراللہ کو حزب اللہ کے زیر زمین ہیڈکوارٹر میں بنکر بسٹر بموں سے نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں ان کے اہم ترین ساتھی کمانڈر علی کرک بھی مارے گئے۔ بعد ازاں، حسن نصراللہ کے جانشین کے طور پر مضبوط ترین امیدوار ہاشم صفی الدین کو بھی اسرائیل نے ایک اور حملے میں شہید کردیا تھا، اور اس کے بعد عبوری سربراہ قاسم نعیم کو حزب اللہ کا نیا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔
اس اعتراف کے بعد اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ متوقع ہے، اور اس کے عالمی سطح پر اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔
ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق، نیتن یاہو نے کابینہ کے ایک اجلاس میں اس بات کا اعتراف کیا کہ حزب اللہ کے خلاف کیے گئے پیجر اور واکی ٹاکی حملوں میں اسرائیل کا ہاتھ تھا۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ حسن نصراللہ کو نشانہ بنانے کے لیے یہ کارروائی محکمہ دفاع کے سینئر عہدیداروں کی مخالفت کے باوجود کی گئی تھی، اور اس کے ذمہ دار سیاسی حکام ہیں جو اسرائیلی حکومت میں موجود ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نیتن یاہو نے اس اعتراف کے دوران اسرائیلی فوج اور انٹیلیجنس کے سربراہ کے ساتھ ساتھ حال ہی میں برطرف ہونے والے وزیردفاع یوو گیلنٹ پر زیادہ تنقید نہیں کی۔ واضح طور پر اسرائیل نے 16 ستمبر کو لبنان میں حزب اللہ کے زیر استعمال پیجر اور واکی ٹاکی کے دھماکوں کی ذمہ داری کھل کر تسلیم نہیں کی تھی، لیکن نیتن یاہو کے اعتراف نے اس واقعے کی حقیقت کو واضح کر دیا۔
حزب اللہ نے 28 ستمبر کو تصدیق کی تھی کہ ایک روز قبل ہونے والے حملے میں حسن نصراللہ شہید ہوگئے ہیں۔ حزب اللہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ ان کا جسد خاکی تباہ شدہ عمارت کے ملبے سے نکالا گیا، اور اسرائیل کی بمباری کے باوجود ان کے جسم پر کسی بڑے زخم کا نشان نہیں تھا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی شہادت دھماکے کی شدت کی وجہ سے ہوئی تھی۔
اسرائیل نے دعویٰ کیا تھا کہ حسن نصراللہ کو حزب اللہ کے زیر زمین ہیڈکوارٹر میں بنکر بسٹر بموں سے نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں ان کے اہم ترین ساتھی کمانڈر علی کرک بھی مارے گئے۔ بعد ازاں، حسن نصراللہ کے جانشین کے طور پر مضبوط ترین امیدوار ہاشم صفی الدین کو بھی اسرائیل نے ایک اور حملے میں شہید کردیا تھا، اور اس کے بعد عبوری سربراہ قاسم نعیم کو حزب اللہ کا نیا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔
اس اعتراف کے بعد اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ متوقع ہے، اور اس کے عالمی سطح پر اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔