اسلام آباد۔عمران خان کے فوکل پرسن اور وکیل انتظار حسین پنجوتھہ کی ڈرامائی انداز میں حسن ابدال سے بازیابی کے بعد اسلام آباد پولیس نے انہیں وفاقی دارالحکومت منتقل کیا اور بیان ریکارڈ کرنے کے بعد گھر بھیج دیا۔
پولیس نے بتایا کہ انتظار حسین پنجوتھہ کو اٹک سے حفاظتی تحویل میں لے کر اسلام آباد منتقل کر دیا گیا جہاں تھانہ کوہسار میں درج مقدمے میں بازیابی ڈال کر ان کا 161 کا بیان ریکارڈ کرکے گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔
پولیس نے بتایا، کہ انتظار حسین پنجوتھہ اپنے بھائی ضیغم پںجھوتھہ کے ہمراہ پولیس اسٹیشن سے اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئے ہیں جبکہ پولیس کی جانب سے ان کی بازیابی کی مفصل رپورٹ پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کی جائے گی۔
خیال رہے کہ، انتظار حسین پنجوتھہ 8 اکتوبر کو اسلام آبادسے لاپتہ ہوگئے تھے اور ان کی بازیابی کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی تھی جہاں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں، یکم نومبر کو سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ انتظار حسین پنجوتھہ اگلے 24 گھنٹوں کے دوران بازیاب ہوجائیں گے۔
بعد ازاں گزشتہ رات ،پولیس نے بتایا کہ تھانہ صدر حسن ابدال اٹک کی حدود میں ہفتہ اور اتوار کی شب گئے مشکوک گاڑی کو روکا گیا تو سوار افراد نے گاڑی بھگا لی اور جب پولیس نے تعاقب کیا توملزموں نےفائرنگ شروع کردی۔
پولیس نے بتایا کہ، جوابی فائرنگ پر ملزمان گاڑی چھوڑ کر ویرانے میں فرار ہوگئے اور پولیس ٹیم نے گاڑی کی تلاشی لی تو اندر موجود شخص نے اپنا نام انتظار حسین پنجوتھہ بتایا، اغوا کاروں نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی اور ہاتھ کمر کے پیچھے اور ٹانگیں دونوں پاؤں سے بندھی ہوئی تھیں اور ان کی حالت غیر تھی۔
انہوں نے کہا کہ پولیس نے گاڑی اور مغوی کو تھانے منتقل کردیا، ابتدائی بیان میں انتظار حسین پنجوتھہ نے بتایا کہ اغوا کار پشتو بول رہے تھے اور چمکنی کا ایک لفظ سمجھ سکا۔
انتظار حسین پنجوتھہ نے بتایا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا، اب بھی چار گھنٹے سے سڑکوں پرگھما رہے تھے اور دو کروڑ تاوان کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
ڈی پی او اٹک سردار غیاث گل نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ انتظار حسین پنجوتھہ سے معلومات کی روشنی میں ملزمان کی گرفتاری کے لیے تلاش جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ اغوا کا مرکزی مقدمہ اسلام آباد میں درج ہے اس لیے مغوی کو اسلام آباد سے ایس پی سٹی کی قیادت میں آنے والی پولیس ٹیم کے حوالے کر دیا گیا ہے جو مزید تفتیش عمل میں لائے گی۔