جے یو آئی نے کہا ہے کہ حکومت کو میٹنگز میں واضح طور پر بتایا گیا تھا کہ سنیارٹی کو متأثر نہ کریں اور جسٹس منصور کو ہی چیف جسٹس مقرر کریں۔ پیپلز پارٹی سمیت حکومتی جماعت نے اس پر رضامندی ظاہر کی، لیکن کمیٹی میں جا کر انہوں نے اپنا مؤقف کیوں تبدیل کیا؟ اس کا جواب ان سے طلب کیا جانا چاہیے۔
، جے یو آئی کے ترجمان نے کہا کہ اس وقت اگر ہمیں کوئی بھی صدر پاکستان بنانے کی پیشکش کرے تو ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔ عہدوں کی باتیں وہ لوگ کر رہے ہیں جو اس بات سے خوش نہیں کہ مولانا کو عزت ملی اور انہوں نے پل کا کردار ادا کیا۔ جب ہمارے پاس تعداد ہوگی تو ہر چیز ممکن ہے، اور دوستوں سے ہماری ناراضی اس بات پر ہے کہ ہمارے نمبر کم کیے گئے ہیں۔
ترجمان جے یو آئی اسلم غوری نے کہا کہ مولانا نے واضح کیا تھا کہ اگر غائب ہونے کے واقعات بند نہ ہوئے تو وہ حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے۔ اگرچہ ہمارا بھی ایک سینیٹر غائب ہوا ہے، لیکن اگر ترمیم نہ کی جاتی تو بڑا نقصان ہوتا، خاص طور پر فوجی عدالتیں اور دیگر خطرناک شقیں جو آج شور مچا رہی ہیں۔ انہیں تو ہمارے شکر گزار ہونا چاہیے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ جاتی امراٰ میں ہونے والی میٹنگ میں حکومت نے دوبارہ فوجی عدالتوں پر زور دیا اور کہا کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں فوج کو زیادہ اختیارات دینے کی ضرورت ہے۔ ہم نے کہا کہ اداروں کو اتنا مضبوط کریں کہ تھوڑی بہت جمہوریت باقی رہے۔ پچھلے 20 برسوں میں کئی آپریشنز ہوئے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ پھر حکومت نے آخری رات اپنے اصل مسودے کو کابینہ میں پاس کروانے کی کوشش بھی کی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت ایسی ترمیم لانا چاہتی تھی جس کے ذریعے پارلیمان چاہے تو سپریم کورٹ کے فیصلے کو ختم کر سکے۔ اس فیصلے سے ہمیں خصوصی نشستیں ملتی تھیں، مگر ہم نے اس ترمیم کو نکلوایا۔ ایک شق آخری وقت پر پارلیمان سے نکلوائی گئی جو آئینی بنچ کی سربراہی سے متعلق تھی، اور فوجی عدالتوں اور ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلے کی شق ختم کروائی گئی۔
جے یو آئی کے ترجمان نے ایک بار پھر واضح کیا کہ حکومت کو میٹنگز میں کہا گیا تھا کہ سنیارٹی کو نہ چھیڑیں، اور جسٹس منصور کو ہی چیف جسٹس بنائیں، لیکن کمیٹی میں جا کر ان کا مؤقف کیوں تبدیل ہوا؟ اس کی وضاحت ان سے طلب کی جانی چاہیے۔