اسلام آباد: وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ جو آئینی ترامیم کا پیکج زیر بحث ہے، وہ صرف تجاویز کا ایک مسودہ ہے اور اسے حتمی نہیں سمجھا جا سکتا۔ انہوں نے جج کی ملازمت کی مدت کے تعین کے لیے بار کونسلز کی کمیٹیاں بنانے کی تجویز دی۔
اسلام آباد میں پاکستان اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب کے دوران وزیر قانون نے کہا کہ موجودہ آئینی ترامیم کا مسودہ صرف ایک تجویز ہے۔ آئینی عدالت کے قیام کا مقصد آرٹیکل 184 کے تحت ازخود نوٹس کا تعین کرنا ہے، کیونکہ 2009 سے 2013 اور پھر 2018 اور 2019 میں ازخود نوٹسز کی کثرت رہی تھی، جبکہ بے نظیر بھٹو کیس کے دوران جج کو دھمکیاں مل رہی تھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجوزہ آئینی ترامیم کے بعد عدالت میں وفاق کی چاروں اکائیوں کی نمائندگی ہوگی۔ وزیر قانون نے واضح کیا کہ آئینی حدود کے اندر قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے، اور جب تک حکومت کی منظوری نہ ہو، اسے بل نہیں کہا جا سکتا۔
اعظم نذیر تارڑ نے یہ بھی بتایا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان 2006 میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے گئے تھے، جس میں انصاف کے قانون کو آسان بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جبکہ وکلاء نے بھی عدالتی اصلاحات کا مطالبہ کیا تھا۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ جنوری اور مارچ میں آئینی ترامیم کے سلسلے میں مذاکرات ہوئے، جن میں پیش کرنے اور منظور کروانے پر اتفاق ہوا تھا، اور 18ویں ترمیم کے نامکمل ایجنڈے کو مکمل کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا۔
وزیر قانون نے کہا کہ کابینہ کی منظوری کے بعد آئینی ترامیم پارلیمنٹ میں پیش کی جاتی ہیں اور پھر یہ دو تہائی اکثریت سے منظور کی جاتی ہیں۔ جب تک کسی بل کو کابینہ میں پیش نہیں کیا جاتا، اسے بل نہیں سمجھا جا سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ میثاق جمہوریت سے پہلے آئینی عدالت کے قیام کا تصور عاصمہ جہانگیر مرحومہ نے پیش کیا تھا، اور آئینی عدالت کا خاکہ نو ممبران پر مشتمل تھا۔ ہم نے یہ بھی سوچا کہ آئینی عدالت میں صوبوں کی نمائندگی ہونی چاہیے۔ وزیر قانون نے یہ بھی کہا کہ اگر بار کونسلز چاہیں تو جج کی عمر کی حد 65 یا 68 سال کرنے کے لیے کمیٹی بنا سکتی ہیں، اور ہماری درخواست ہے کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔