اسلام آباد۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی وجہ سے ممکن ہوئی، اور کسی دوسرے چیف جسٹس کی موجودگی میں یہ ممکن نہ ہوتا۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ ترمیم ایک بڑا کارنامہ تھی، جو کسی اور چیف جسٹس کی حالت میں ممکن نہیں تھی۔ پاکستان کی تاریخ میں صرف ایک شخص ہے، جو پارلیمنٹ اور آئین کی پاسداری کے لیے تیار تھا، چاہے یہ اس کی ذاتی طاقت کی قیمت پر ہی کیوں نہ ہو۔ وہ اپنے ساتھی ججوں کے دباؤ کا سامنا کر سکتا تھا، جو ممکنہ طور پر اسے بھڑکانے کی کوشش کرتے کہ یہ آپ کا معاملہ نہیں بلکہ ججوں کی طاقت کا سوال ہے۔
بلاول نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم میں فوجی عدالتوں کو سیاسی رنگ دیا گیا اور اس پورے عمل کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی۔ ایک لابی نے فوجی عدالتوں کے ساتھ کالا سانپ کی تشبیہ دی تھی۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مسلم لیگ ن آئین کے آرٹیکل آٹھ میں تبدیلی کرنا چاہتی تھی تاکہ فوجی چوکیوں اور تنصیبات کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف اور عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جا سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باعث 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے میں رکاوٹیں تھیں۔ ہماری تجویز تھی کہ جہاں ’مسلح افواج کے ارکان‘ لکھا ہوا ہے، اسے بدل کر ’مسلح افواج‘ کر دیا جائے۔ حکومت چاہتی تھی کہ اس کا ماضی میں اطلاق ہو اور اس میں عسکری تنصیبات اور فوجی چوکیوں کو بھی شامل کیا جائے، لیکن چوکیوں پر ہمارے اور مولانا فضل الرحمان کے اعتراضات تھے۔ اس ایک لفظ کو کالا سانپ بنا دیا گیا جس کے نام پر پورے عمل کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ملک سے سیاسی انتقام کی روش ختم کرنی ہے تو پہلا قدم عمران خان کو اٹھانا ہوگا۔ بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ آرٹیکل 63-اے کے فیصلے کے پیچھے سیاسی مقاصد تھے، اور اگر اس نوعیت کے فیصلے نافذ ہو جاتے تو 26 ویں آئینی ترمیم میں مشکلات پیدا ہوتیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کا تعلق کسی ایک فرد سے منسوب کرنا درست نہیں، کیونکہ مخالفین نے ایک معزز جج اور اس پورے عمل کو سیاسی رنگ دیا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ منصور علی شاہ چیف جسٹس نہیں بنیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کے بغیر بھی ہمارے پاس نمبروں کی کمی نہیں تھی۔