جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ایڈوکیٹ فیصل چوہدری کی درخواست پر سماعت کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے پوچھا کہ کیا آپ یہ کہتے ہیں کہ حکومت ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے انصاف کی فراہمی کے عمل کو روک سکتی ہے؟ اسٹیٹ کونسل نے جواب دیا کہ عدالت کی سماعتیں نہیں ہو رہی تھیں، اس لیے ملاقات نہیں کرائی گئی۔
عدالت نے کہا کہ درخواست گزار یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ نوٹیفکیشن درست ہے یا نہیں، اس کے لیے علیحدہ پٹیشن دائر کرنی ہوگی، لیکن عدالتی حکم کے باوجود ملاقات سے انکار عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے۔
اسٹیٹ کونسل نے کہا کہ پنجاب حکومت نے لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کی بنا پر جیل ملاقاتوں پر پابندی لگائی ہے۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے پوچھا کہ کیا وکلا کی ملاقاتوں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی؟ جس نے یہ نوٹیفکیشن جاری کیا، اس نے بھی توہین عدالت کی ہے۔ اگر حکومت پنجاب نے وکلا کی ملاقات روکی ہے تو یہ توہین عدالت ہے۔ وزارت داخلہ کو رپورٹ جمع کرانی ہوگی کہ کیا سیکیورٹی وجوہات تھیں۔
درخواست گزار نے کہا کہ 3 اکتوبر سے اب تک وکلا کی جیل ملاقات نہیں کرائی گئی۔
عدالت نے کہا کہ اتنے خط جاری کرنے کے بعد اگر یہ حقیقی نہ ہوں تو نتیجہ کیا نکلے گا۔ جنہوں نے یہ خط لکھے ہیں، ان سے ان کیمرہ پوچھا جائے گا اور قرآن پر ہاتھ رکھوا کر بیان حلفی لیا جائے گا کہ واقعی یہ صورت حال تھی۔
شعیب شاہین ایڈوکیٹ نے کہا کہ اگر ہم جیل چلے جائیں تو کیا ہم پر کوئی سیکیورٹی خطرہ ہے؟
اسلام آباد ہائیکورٹ نے تین بجے بانی پی ٹی آئی کو عدالت پیش کرنے کا حکم دیا، کہا کہ عمران خان کو لے کر آئیں گے تاکہ وہ اپنے وکلا کے ساتھ ملاقات کر سکیں۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ اگر بانی پی ٹی آئی کو عدالت میں پیش کیا جائے گا تو یہ عدالت کی عظمت ہوگی۔ آپ سیکیورٹی کے انتظامات کریں اور عمران خان کو عدالت میں لائیں، اگر نہیں لا سکے تو کل عدالت کو بتائیں گے کہ کیوں پیش نہیں کر سکے۔
ہائیکورٹ نے سپریڈنٹ اڈیالہ جیل کو حکم دیا کہ اگر آپ انہیں نہیں لائیں گے تو وجہ بتائیں گے، اور جس سیکیورٹی خطرے کی بنا پر نہیں لائیں گے، اس بارے میں عدالت کو مطمئن کریں گے۔