اسلام آباد۔وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی نے جسٹس منصور علی شاہ کو متنازعہ بنایا۔ تحریک انصاف کے لوگوں نے 4 مہینے پہلے یہ بات شروع کی کہ بس اکتوبر کا انتظار کریں، اور یہ کہ سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ وہ آتے ہی ان کا دھڑن تختہ کر دیں گے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ آئینی ترمیم کے بعد عدالتی حد تک معاملات میں اب راوی چین ہی لکھے گا۔ جوڈیشل اسٹرکچر میں توازن نہیں تھا، انیسویں ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے ججز کو خود تعیناتیاں اور خود پروموشن کا اختیار دے دیا گیا تھا، جس سے معاملات خراب ہوئے، اور ججز کی ترقیوں میں مسائل پیدا ہوئے۔ اس کے نتیجے میں گروپنگ ہوئی، جو اس حد تک گئی کہ ایک دوسرے کی عزت اور وقار کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔
وزیر اعظم کے مشیر نے کہا کہ باقاعدہ فیصلوں میں ایک دوسرے کے خلاف لکھا گیا، اور خطوط لکھے گئے۔ خط جس کو لکھا گیا، وہ پہلے میڈیا کو پہنچا۔ پھر پارلیمنٹ پر اس طرح حملہ ہوا کہ آئین کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کی جانے لگی۔ یہاں تک کہ بعض صورتوں میں ایسے اسٹے جاری کیے گئے کہ جس سے حکومت اور پارلیمنٹ کا فنکشنل ہونا روکا گیا، اور حکومت کی تبدیلیوں میں باقاعدہ عمل دخل روا رکھا گیا، حالانکہ پارلیمنٹ نے 58 ٹو بی ختم کر دی لیکن جوڈیشری نے اسے بحال کر دیا۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کو پی ٹی آئی نے متنازعہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی والوں سے اللہ کی پناہ، یہ کسی چیز کے پاس سے گزر جائیں یا کسی چیز کو ہاتھ لگا لیں تو اس کو بھی متنازعہ بنا دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ابھی سنی اتحاد کونسل کے حامد رضا خان نے کہا کہ وہ منصور علی شاہ کے علاوہ کسی جج کو قبول ہی نہیں کریں گے۔ اب دیکھیں کہ ایک سیاسی بندہ جو خود ملک میں ہر فساد یا جھگڑے کا فریق ہو، وہ کسی شخص کے بارے میں کوئی بات کہہ دے تو اس شخص کی بدقسمتی ہے۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اس میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ کون سے کیسز کہاں جائیں گے، آئینی معاملات آئینی بینچ کے پاس ہی جائیں گے، بینچ کی تشکیل حکومت نہیں کرے گی بلکہ ایک آزاد جوڈیشل کمیشن اس بینچ کی تشکیل کرے گا کیونکہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد ساری طاقت جوڈیشل کمیشن کے پاس چلی گئی ہے۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ پچھلے 5 سے 7 سال کی پوری ایک داستان ہے، جس کے بعد پارلیمنٹ نے مؤثر آئینی ترمیم کرنے کا فیصلہ کیا، اور اس بات کا خیال رکھا گیا کہ مکمل بیلنس کیا جائے۔ آئینی ترمیم کے ذریعے ایک خوبصورت طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے جس کے بعد مجھے نہیں لگتا کہ آئندہ عدلیہ کے حوالے سے کوئی ڈسٹربنس کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جب خواجہ آصف کے بیان کے حوالے سے سوال ہوا کہ کیا واقعی کچھ ججز یہ بات کر رہے تھے کہ اکتوبر آئے گا تو حکومت کو گھر بھیجا جائے گا؟ تو رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ہمارے پنجاب کے کسی گاؤں میں اگر کوئی شخص بہت فسادی ہو، تو اس کے بارے میں کہاوت ہے کہ اس کے پاس تو قبر بھی نہیں ہونی چاہیے۔ پی ٹی آئی ایک ایسا انتشاری ٹولہ ہے کہ اس کی مخالفت تو بری ہے ہی، حمایت بھی اچھی نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ خواجہ آصف نے جو بات کی، یہ دراصل پی ٹی آئی کے لوگوں کی بات ہے جو آج سے 4 مہینے پہلے یہ کہہ رہے تھے کہ بس اکتوبر کا انتظار کریں، اور سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ میں آتے ہی ان کا دھڑن تختہ کر دوں گا۔ حالانکہ یہ بات غلط تھی، جسٹس منصور علی شاہ ایسے جج نہیں ہیں، لیکن سوشل میڈیا پر پھر کیسی کہانیاں بنتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ منصور علی شاہ ایک بڑے انڈیپنڈنٹ جج ہیں، لیکن پی ٹی آئی والوں نے ایسی بات کردی کہ اس کے بعد ایسی صورتحال پیدا ہوئی جو نامناسب تھی۔