اسلام آباد۔ جولائی کے مخصوص سیٹوں کے فیصلے کے حوالے سے سپریم کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کی درخواست کی وضاحت کے بعد مجوزہ آئینی ترمیم کا معاملہ بھی لٹک گیا ہے، کیونکہ سپریم کورٹ اسے قانونی خامیوں کی بنا پر مسترد کر سکتی ہے۔
اگرچہ حکومت نے آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی مکمل تیاری کر لی ہے، لیکن اس معاملے میں ابھی کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح، الیکشن کمیشن بھی مخصوص سیٹوں پر عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنے کے باعث مسائل میں ہے۔
جنرل الیکشن 90 دن کی مدت کے اندر نہ کرانے کے حوالے سے الیکشن کمیشن پر سنجیدہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ 8 فروری کے الیکشن کی شفافیت کے بارے میں بھی الیکشن کمیشن پر تنقید کی جارہی ہے، پی ٹی آئی دھاندلی کا الزام الیکشن کمیشن پر لگا رہی ہے۔
ایڈووکیٹ عبد المعیز جعفری نے کہا کہ سپریم کورٹ نے سمجھا ہے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت تسلیم کیا ہے، اور پھر بھی وہ انٹرا پارٹی الیکشن کی کوتاہیوں کے تحت پارٹی کے ارکان کو شناخت سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔ الیکشن کمیشن عدالت میں اپنی پوزیشن کامیابی سے پیش نہیں کر سکا۔
سپریم کورٹ نے محسوس کیا کہ غیر مصدقہ وجوہات کی بنا پر عدالت کے احکامات پر عمل درآمد میں جان بوجھ کر تاخیر کی جا رہی ہے۔ مزید یہ کہ اگر جمعیت علمائے اسلام کے اراکین بھی آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیں، تو بھی حکومت کو دونوں ایوانوں میں تین اراکین کی کمی کا سامنا ہے۔
سابق ایڈیشنل جنرل طارق محمود کھوکھر نے کہا کہ یہ الیکشن کمیشن کی عدالت کی طرف سے سرزنش ہے جو مکمل استثنیٰ کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم نے الیکشن کمیشن کو اس کی غیر قانونی کارروائیوں اور ان کے نتائج کی یاد دہانی کرائی ہے۔