اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے توشہ خانہ ٹو کیس میں تفصیلی فیصلہ جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ اس کیس میں مزید انکوائری کی ضرورت ہے اور کارروائی شروع نہیں کی جا سکتی۔ فیصلے میں عدالت نے کہا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی پر سعودی ولی عہد سے بلغاری جیولری سیٹ کا تحفہ توشہ خانہ میں جمع نہ کرانے کا الزام تھا، لیکن 2018 کے توشہ خانہ رولز کے مطابق صرف رسید جمع کرانا ضروری تھا، نہ کہ تحفہ۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ عمران خان نے ڈپٹی ملٹری سیکرٹری کے ذریعے رسید توشہ خانہ میں جمع کرائی تھی، اور اس وقت تک تحفہ جمع کرانے کی ضرورت نہیں تھی۔ 2023 میں کابینہ ڈویژن نے آفس میمورنڈم میں ترمیم کی تھی، جس کے تحت اب تحفہ جمع نہ کرانے پر کارروائی کی بات کی گئی تھی، لیکن یہ ترمیم ماضی کی کارروائیوں پر لاگو نہیں ہو سکتی۔ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ آفس میمورنڈم کا اطلاق ماضی کی کارروائیوں پر نہیں ہو سکتا۔
عدالت نے کہا کہ اس وقت تک توشہ خانہ ٹو کیس میں مزید انکوائری کی ضرورت ہے، اور پراسیکیوٹر کا یہ کہنا کہ عمران خان نے توشہ خانہ ون میں بھی سزا پائی ہے، دراصل نیب پراسیکیوٹر کے اعتراضات کے بعد معطل ہو چکی ہے۔ عدالت نے وضاحت کی کہ ایف آئی اے کے کیس میں یہ نہیں کہا گیا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی نے تحفے کی قیمت کم کرانے میں براہ راست دھمکی دی یا پریشر ڈالا، اور تحفے کی قیمت کا تعین کرنے والے گواہ کا بیان بھی ابھی تک ریکارڈ نہیں ہوا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ عمران خان 72 سال کے ہیں اور اس کیس میں چار ماہ سے زائد عرصے تک زیر حراست رہے، اور کیس ایف آئی اے کو منتقل ہونے کے بعد تفتیشی افسر نے عمران خان سے سوال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس کیس کے دستاویزی شواہد پہلے ہی پراسیکیوشن کے قبضے میں ہیں، اور ٹمپرنگ کا کوئی خدشہ نہیں۔
عدالت نے عمران خان کو ہدایت دی کہ وہ ضمانت کا غلط استعمال نہ کریں اور ہر سماعت پر ٹرائل کورٹ میں پیش ہوں۔ اگر وہ ضمانت کا غلط استعمال کرتے ہیں تو پراسیکیوشن ضمانت منسوخی کی درخواست دائر کر سکتا ہے۔