امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں کے بعد کینیڈا نے اپنی سرحدوں اور امیگریشن پالیسیوں کو مزید سخت کرنے کا اعلان کیا ہے۔
کینیڈا کے چار وزرا نے ایک جامع سرحدی سلامتی منصوبہ پیش کیا، جس میں سرحدی نگرانی، انٹیلیجنس، اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دیا گیا۔ اس منصوبے کو امریکی انتظامیہ، خاص طور پر ٹرمپ کے سرحدی وزیر ٹام ہومن کے ساتھ شیئر کیا گیا۔
وزیر پبلک سیفٹی ڈومینک لی بلانک کے مطابق، کینیڈا اور امریکہ کی سرحد پر نگرانی کے لیے ہیلی کاپٹر، ڈرونز، نگرانی ٹاورز، اور سراغ رساں کتوں کے استعمال کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی منظم جرائم کے خاتمے کے لیے مشترکہ اسٹرائیک فورس بنائی جائے گی۔
وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی حکومت نے آئندہ چھ سالوں میں سرحدی سلامتی کے لیے 1.3 بلین کینیڈین ڈالر (909 ملین امریکی ڈالر) کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ یہ فنڈ فینٹانل کی اسمگلنگ، غیر قانونی ہجرت، اور منظم جرائم کو روکنے کے لیے استعمال ہوگا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا اور میکسیکو کو خبردار کیا تھا کہ اگر امریکہ میں تارکین وطن یا منشیات کی نقل و حرکت کو نہ روکا گیا تو کینیڈین مصنوعات پر بھاری ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
امریکی حکام کے مطابق، گزشتہ سال کے دوران امریکہ-کینیڈا سرحد پر 23,000 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا، جو پچھلے سال کے مقابلے میں دوگنا ہیں۔ تاہم یہ تعداد امریکہ-میکسیکو سرحد پر گرفتار ہونے والے 1.5 ملین افراد کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
کینیڈین پولیس نے سرحد کے گنجان آباد علاقوں میں مزید کیمرے اور سینسر نصب کیے ہیں تاکہ غیر قانونی سرگرمیوں پر قابو پایا جا سکے۔
کینیڈا کا یہ سخت مؤقف ان دونوں ممالک کے درمیان سرحدی سلامتی کے حوالے سے بڑھتے ہوئے تناؤ کو ظاہر کرتا ہے، جہاں کینیڈین حکومت اپنی خودمختاری اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہے۔