سائنس دانوں کے ایک بین الاقوامی گروپ نے تازہ ترین رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ تجربہ گاہ میں بنایا گیا ‘مرر بیکٹیریا’ زمین پر تمام جانداروں کے لیے ایک سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔
اس تحقیق کے مطابق، ڈی این اے، پروٹین، اور کاربوہائڈریٹس جیسے زندگی کے بنیادی سالمے اپنی ساخت میں ایک منفرد خصوصیت رکھتے ہیں جسے اسٹرکچرل اے سمٹری کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سالموں کا ایک متبادل، یعنی منعکس ورژن بھی ہو سکتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے انسان کا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کا منعکس ورژن ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر، ڈی این اے اور آر این اے رائٹ-ہینڈڈ مالیکیولز سے بنتے ہیں، جبکہ پروٹین لیفٹ ہینڈڈ امائنو ایسڈز سے تشکیل پاتے ہیں۔ ‘مرر بیکٹیریا’ (جو کہ ایک مصنوعی نوع ہے) کو اُلٹی ترتیب سے بنایا جا سکتا ہے، یعنی ان کے ڈی این اے اور پروٹین کی ساخت الٹی ہوگی۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ منعکس بیکٹیریا تمام جانداروں سے مختلف ہوتے ہیں، لیکن ان کی موجودگی ماحولیاتی توازن اور انسانی صحت کے لیے شدید خطرہ بن سکتی ہے۔ اگر ان بیکٹیریا کو احتیاط سے کنٹرول نہ کیا گیا تو یہ وائرس اور مائیکروبز جیسی حیاتیات کو نشانہ بنا سکتے ہیں جو بیکٹیریا کی تعداد کو قابو میں رکھتے ہیں، اور اس طرح یہ زندگی کے تمام نظاموں میں مداخلت کر سکتے ہیں۔
اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ‘مرر بیکٹیریا’ کی منفرد خصوصیات انہیں انتہائی خطرناک بنا سکتی ہیں، کیونکہ یہ قدرتی طور پر پائے جانے والے جانداروں کے ساتھ متعامل ہو سکتے ہیں اور ان کے جسمانی عمل کو متاثر کر سکتے ہیں۔ اس لیے ان مصنوعی جانداروں کے ممکنہ خطرات کو سمجھنا اور ان پر قابو پانا بہت ضروری ہوگا تاکہ انسانوں اور دیگر جانداروں کی صحت کو محفوظ رکھا جا سکے۔
اس تحقیق کے مطابق، ڈی این اے، پروٹین، اور کاربوہائڈریٹس جیسے زندگی کے بنیادی سالمے اپنی ساخت میں ایک منفرد خصوصیت رکھتے ہیں جسے اسٹرکچرل اے سمٹری کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سالموں کا ایک متبادل، یعنی منعکس ورژن بھی ہو سکتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے انسان کا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کا منعکس ورژن ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر، ڈی این اے اور آر این اے رائٹ-ہینڈڈ مالیکیولز سے بنتے ہیں، جبکہ پروٹین لیفٹ ہینڈڈ امائنو ایسڈز سے تشکیل پاتے ہیں۔ ‘مرر بیکٹیریا’ (جو کہ ایک مصنوعی نوع ہے) کو اُلٹی ترتیب سے بنایا جا سکتا ہے، یعنی ان کے ڈی این اے اور پروٹین کی ساخت الٹی ہوگی۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ منعکس بیکٹیریا تمام جانداروں سے مختلف ہوتے ہیں، لیکن ان کی موجودگی ماحولیاتی توازن اور انسانی صحت کے لیے شدید خطرہ بن سکتی ہے۔ اگر ان بیکٹیریا کو احتیاط سے کنٹرول نہ کیا گیا تو یہ وائرس اور مائیکروبز جیسی حیاتیات کو نشانہ بنا سکتے ہیں جو بیکٹیریا کی تعداد کو قابو میں رکھتے ہیں، اور اس طرح یہ زندگی کے تمام نظاموں میں مداخلت کر سکتے ہیں۔
اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ‘مرر بیکٹیریا’ کی منفرد خصوصیات انہیں انتہائی خطرناک بنا سکتی ہیں، کیونکہ یہ قدرتی طور پر پائے جانے والے جانداروں کے ساتھ متعامل ہو سکتے ہیں اور ان کے جسمانی عمل کو متاثر کر سکتے ہیں۔ اس لیے ان مصنوعی جانداروں کے ممکنہ خطرات کو سمجھنا اور ان پر قابو پانا بہت ضروری ہوگا تاکہ انسانوں اور دیگر جانداروں کی صحت کو محفوظ رکھا جا سکے۔