اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں دس لاکھ روپے کے دو مچلکوں کے عوض رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ میڈیا میں پہلے ہی یہ خبریں چل رہی ہیں کہ ضمانت منظور ہو جائے گی، جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ میڈیا کا کاروبار اسی طرح چلتا ہے، اگر وہ سنسنی نہ پھیلائیں تو ان کا کاروبار کیسے قائم رہ سکتا ہے۔
بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الزام ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے ذاتی فائدے کے لیے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا، لیکن چالان میں بشریٰ بی بی کا نام ہونے کے باوجود یہ واضح نہیں کہ مرکزی ملزم کون ہے؟ وکیل نے کہا کہ مقدمے کا اندراج تین سال بعد کیا گیا، اور اس کیس میں کوئی واضح جرم نہیں ہے۔ اس لیے ضمانت منظور کی جانی چاہیے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے یہ بھی کہا کہ توشہ خانہ کی پالیسی کے مطابق تحائف حاصل کیے گئے تھے، اور ان تحائف کی جو قیمت لگائی گئی تھی، وہ پالیسی کے مطابق ادا کی گئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسٹم اور اپریزر کی طرف سے طے کردہ قیمت پر تحائف حاصل کیے گئے اور اب، ساڑھے تین سال بعد، بیانات بدلے جا رہے ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سابق حکومت کی توشہ خانہ کی تفصیلات چھپانے کی پالیسی پر ریمارکس دیے کہ پچھلی حکومت توشہ خانہ کی تفصیلات عوام سے چھپاتی تھی اور ہم نے کئی بار ان سے یہ معلومات مانگی لیکن وہ ہمیں نہیں دی گئیں۔
وکیل نے دلائل میں کہا کہ اپریزر صہیب عباسی نے یہ کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے انہیں دھمکی دی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی کبھی صہیب عباسی سے ملاقات نہیں ہوئی۔ کسٹم کے تین افسران نے اپنے بیانات میں کہا کہ ان پر کوئی دباؤ نہیں تھا، تو پھر انہوں نے قیمت کیوں غلط لگائی؟
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے دلائل دیے کہ بلغاری سیٹ توشہ خانہ میں جمع نہیں کرایا گیا، اور اس عمل کے ذریعے ریاست کو نقصان پہنچایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی اور ان کی بیوی نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پوچھا کہ بانی پی ٹی آئی کو کس طرح فائدہ پہنچا؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ چونکہ بشریٰ بی بی کو فائدہ ملا، اس لیے بانی پی ٹی آئی کو بھی فائدہ ہوا۔ جسٹس اورنگزیب نے کہا کہ ان کی بیوی کی چیزیں ان کی نہیں ہیں اور اس معاملے پر ریمارکس دیے کہ ہم کس دنیا میں ہیں۔
عدالت نے اس کے بعد وقفہ کیا اور پھر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بشریٰ بی بی کے ٹرائل کورٹ میں پیش نہ ہونے کی وجہ سے فردِ جرم میں تاخیر کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ بشریٰ بی بی نے توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت حاصل کی تھی، لیکن وہ ٹرائل کورٹ میں پیش نہیں ہو رہی ہیں، جس کی وجہ سے فردِ جرم میں تاخیر ہو رہی ہے۔ ایف آئی اے نے یہ بھی کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے جیولری کا تخمینہ لگانے والے شخص کو دھمکی دی تھی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پوچھا کہ کسٹمز افسران کے خلاف کارروائی کی کیا صورتحال ہے؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ان افسران کی کوتاہی تھی لیکن یہ کرمنل مس کنڈکٹ نہیں تھا، اور نیب نے ان افسران کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کی سفارش نہیں کی۔
آخرکار، اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں دس لاکھ روپے کے دو مچلکوں کے عوض ضمانت دے دی اور کہا کہ اگر ضمانت کا غلط استعمال کیا گیا تو فیصلہ واپس لیا جا سکتا ہے۔