اسلام آباد۔ ملک میں سست معاشی ترقی اور بڑھتی ہوئی غربت کے خاتمہ کیلئے پالیسی سازوں کو ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جن کے ذریعے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول اور معیشت کی راہ میں رکاوٹ بننے والے شعبوں کی خامیوں کو دور کیا جا سکے ۔ کم سے کم اجرت کا تعین بھی مہنگائی کی شرح کے حساب سے ہونا چیلنجز کے باوجود، اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ضروری ہے ۔تجاویز ماہرین نے یہاںپائیدار ترقی کانفرنس کے تیسرے روز مختلف اجلاسوں میں پالیسی ڈائیلاگ کے دوران پیش کی۔
یہ کانفرنس پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام جاری ہے۔ کانفرنس میں پینل مباحثے، پالیسی ڈائیلاگ، گول میز اجلاس اور موضوعاتی سیشن کا سلسلہ جاری رہا۔پاکستان میں مقامی حکومت کا نظام: چیلنجز اور مواقع تھا،کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے اقومی اسمبلی کی رکن نفیسہ شاہ نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد آرٹیکل 140-A کو مضبوط کیا گیا ہے اور اب مقامی حکومتیں صوبائی دائرہ کار میں آ چکی ہیں۔ تاہم چیلنجز کے باوجود، اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ضروری ہے۔
ایم این اے ریاض فتیانہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن مقامی حکومت کے انتخابات مقررہ وقت میں کرانے میں ناکام رہا ہے اسے اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہئے۔ ایم کیو ایم کے رہنما جاوید حنیف خان نے کہا کہ ناکافی فنڈز کی وجہ سے مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط نہیں کیا جا رہا ۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے نائب جنرل سیکریٹری فراست علی شاہ نے بھی خطاب کیا۔آج کے نوجوانوں اور مستقبل کی افرادی قوت کے مواقع اور چیلنجزکے موضوع پرمقررین نے زور دیا کہ نوجوانوں کو سماجی تحفظ کے اقدامات کے ذریعے بااختیار بنانا ضروری ہے تاکہ انہیں ملک کی معیشت میں مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جا سکے۔
پاکستان میں سرکولرٹی اور استعمال شدہ ٹیکسٹائل تجارت پر قومی پالیسی مکالمہ سے خطاب کرتے ہوئےبحری امورکے وزیر قیصر احمد شیخ نے کہا کہ حکومت آلودہ کارگو کو نیلام کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے کیونکہ یہ آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔ ڈی جی ٹیکسٹائل، مدثر رضا نے کہا کہ استعمال شدہ ٹیکسٹائل اور سرکولرٹی نے پاکستان میں تقریباً 20 لاکھ نوکریاں پیدا کی ہیں۔ انہوں نے برآمدی ترقیاتی فنڈ کے ذریعے حکومت کی مداخلت پر بھی بات کی۔
UNEP کے اکنامک اینڈ ٹریڈ پالیسی یونٹ کے سربراہ اسد نقوی نے کہا کہ استعمال شدہ ٹیکسٹائل غریب عوام، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں اور ان کے آس پاس کے ویلیو چینز کے لئے اہم ہیں۔ یورپی یونین کے وفد کے سربراہ، جیورین ولمز نے کہا کہ یورپ سے پاکستان، گھانا اور تیونس کو مو ¿ثر طریقے سے استعمال شدہ ٹیکسٹائل برآمد کیے جا رہے ہیں اور عالمی سطح پر استعمال شدہ ٹیکسٹائل کی مانگ دوگنی ہو جائے گی۔
اس موقع پر GIZ جرمنی کی یولیا بڑینوا، مصطفیٰ ستار، Retex Global اور KPEX کراچی کے نمائندگان نے بھی خطاب کیا۔سماجی ہم آہنگی: ہمہ گیر ترقی کےلئے رواداری اور امن کے فروغ پر پینل گفتگو میںپی پی پی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اقلیتوں اور وفاق کی سرحدی علاقوں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ان میں محرومی کے جذبات پیدا ہوئے ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ معاشرتی عدم برداشت اور امن کی کمی ریاست کی پالیسی فیصلوں سے پیدا ہوئی ہے۔
سابق وفاقی سیکرٹری ڈاکٹر سید کلیم امام نے کہا کہ اعتماد، اصول، سماجی معاہدہ اور اخلاقیات سماجی ہم آہنگی کیلئے ضروری ہیں۔سینئر صحافی عاصمہشیرازی نے کہا کہ نظام کو جارحانہ انداز میں تباہ کیا گیا ہے جسے دوبارہ بحال کرنے کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ پائیدار پاکستان اجرت کے خلا کو دور کرکے مساوات قائم کرنے کے موضوع پر گول میز مباحثہ میں لیبر قوانین کے ماہرین اور کثیر القومی آجر اداروں کے نمائندے اجرت کو بہتر بنانے کے طریقوں پر گفتگوکی۔
یونی لیور کی فاطمہ ارشد اور ڈاکٹر اسدسعیدنے کہاکہ اگر مزدوروں کے حقوق محفوظ اور اجرتیں مناسب ہوں تو نہ صرف ان کی کام کرنے کی صلاحت برھتی ہے بلکہ اس سے جی ڈی پی میں بھی اضافہ ممکن ہے ۔ جرمن سفارتخانے کے ڈاکٹر سیبسٹین پیوسٹ نے کہا کہ یورپی یونین پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے۔انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان کی جانب سے جی ایس پی+ اسٹیٹس کے کنونشنز کا اطلاق اطمینان بخش نہیں ہے اگر اس کو بہتر نہ بنایاگیا تو پاکستان اس درجے سے محروم ہوسکتاہے۔
ڈاکٹر اظفر خان اورمونس رحمان نے تجویز دی کہ کم از کم اجرت کے تعین کےلئے استعمال ہونے والے فریم ورک کو مہنگائی کی شرح کے ساتھ مسلسل اپ ڈیٹ کیا جانا چاہئے۔ کلائمیٹ رسک انشورنس کے لئے مائیکرو فنانس اداروں کا کردارکے موضوع پر منعقدہ سیشن میں مقررین نے کہا کہ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر روایتی فنڈنگ ماحولیاتی لچک کے لئے ناکافی ہے اس میں اضافہ ہونا چاہئے۔سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے سینئرافسر وزیرزادہ یاسر نے کئی انشورنس کمپنیوں کے تعاون سے موسمیاتی خطرے کی انشورنس پروڈکٹس کو ایک پول کے ذریعے لانچ کرنے کی تجویز دی ۔ اس موقع پر خولہ شعیب ، علی بشارت اورسید ب ±لند سہیل نے کلائمیٹ رسک انشورنس پروڈکٹس کیلئے عوامی و نجی شراکت داری کو مضبوط بنانے اور جامع ماحولیاتی موافقت پروگرام کی ضرورت پر زور یا۔ورلڈ بینک کے عمر بلوچ نے کہا کہ مائیکرو فنانس اداروں کا کردار مالی شمولیت کے لئے ایک محرک ہے اور بینک مالی شمولیت کے لئے مائیکرو فنانس کی حمایت کرتا ہے۔