اسلام آباد۔ چیف آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جب آئین میں لکھ دیا گیا کہ نااہل رکن ڈی سیٹ ہوگا تو ڈی سیٹ ہی ہوگا، ایک طرف رائے دی گئی منحرف رکن ڈی سیٹ ہوگا اور دوسری طرف کہا گیا کہ نااہلی کی مدت کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے یہ تو تضاد ہے، لگتا ہے آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ تحریک عدم اعتماد کو غیر موثر بنانے کے لئے تھا ۔
سپریم کورٹ، کا پانچ رکنی بینچ منحرف ارکان اسمبلی سے متعلق آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیلوں پر سماعت کررہا ہے، بینچ کے سربراہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی ہیں جبکہ اس میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مظہر عالم میاں خیل شامل ہیں
بانی پی ٹی آئی، کے وکیل علی ظفر نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھا دیا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو بعد میں سنیں گے ابھی آپ بیٹھ جائیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہمیں بینچ کی تشکیل نو پر اعتراض ہے۔
سپریم کورٹ بار، کے وکیل اور صدر شہزاد شوکت نے دلائل شروع کیے اور کہا کہ 18 مارچ کو سپریم کورٹ بار نے درخواست دائر کی، 21 مارچ کو چار سوالات پر مبنی صدارتی ریفرنس بھجوایا گیا۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا ریفرنس اور ا?پ کی درخواستوں کو ایک ساتھ سنا جا سکتا تھا؟ وکیل شہزاد شوکت نے کہا کہ 27 مارچ اس وقت کے وزیر اعظم نے ایک ریلی نکالی۔اس پر چیف جسٹس نے انہیں ٹوک دیا کہ سیاسی معاملات پر بات نہ کریں۔
صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ 8 مارچ کو عدم اعتماد کی تحریک آئی، 21 مارچ 2022ءکو پی ٹی آئی حکومت میں صدر مملکت نے سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیجا، ہماری درخواست آرٹیکل 184?3 کے تحت دائر ہوئی صدر مملکت نے آرٹیکل 186 کے تحت ریفرنس دائر کیا۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ آئینی درخواست کس نے دائر کی تھی؟ اس وقت صدر مملکت کون تھے؟ صدر بار نے کہاکہ پی ٹی آئی نے درخواست دائر کی اور اس وقت عارف علوی صدر مملکت تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک طرف صدر مملکت ریفرنس بھیج رہے ہیں دوسری طرف حکومتی جماعت آرٹیکل 184کے تحت ریفرنس دائر کرتی ہے۔صدر سپریم کورٹ بار نے پوچھا کہ ریفرنس میں یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ کیا منحرف ارکان اسمبلی کا ووٹ شمار ہوگا، سپریم کورٹ نے ریفرنس پر رائے دے کر آئین میں نئے الفاظ شامل کیے۔جب آئین میں لکھ دیا گیا کہ نااہل رکن ڈی سیٹ ہوگا تو ڈی سیٹ ہوگا
چیف جسٹس نے پوچھا کہ ایک طرف رائے دی گئی کہ منحرف رکن ڈی سیٹ ہوگا اور دوسری طرف کہا گیا کہ نااہلی کی مدت کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے یہ تو تضاد ہے، جب آئین میں لکھ دیا گیا کہ نااہل رکن ڈی سیٹ ہوگا تو ڈی سیٹ ہوگا، چیف جسٹس کی رائے میں کہاں کہا گیا کہ ڈی سیٹ ہوگا؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈی سیٹ کرنا ہے یا نہیں یہ تو پارلیمانی پارٹی کے ہیڈ کو فیصلہ کرنا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا عدالت کی یہ رائے صدر کے سوال کا جواب تھی؟ صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا کہ یہ رائے صدر کے سوال کا جواب نہیں تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ اخلاقیات سے متعلق ریفرنس میں سوال کیا جینوئن تھا؟ اس پر شہزاد شوکت نے کہا کہ عدالت نے قرار دیا تھا منحرف رکن کا ووٹ گنا نہیں جاسکتا، ایک سوال کسی رکن کے ضمیر کی اواز سے متعلق تھا، فیصلے میں آئین پاکستان کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کی گئی۔
آخری جملے پر ،چیف جسٹس نے انہیں ٹوکا کہ ابھی آپ ایسے دلائل نہ دیں بنیادی حقائق مکمل کریں، ریفرنس کے سوال میں انحراف کے لیے کینسر کا لفظ لکھا گیا، یہ لفظ نہ ہوتا تو کیا سوال کا اثر کم ہو جاتا؟ آپ بتائیں آپ کو اس فیصلے پر اعتراض کیا ہے؟ آپ کو اعتراض اقلیتی فیصلے پر ہے یا اکثریتی فیصلے پر؟ شہزاد شوکت نے کہا کہ ہم اکثریتی فیصلے پر اعتراض اٹھا رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے فیصلے میں یہ کہاں لکھا ہے کہ ووٹ نہ گنے جانے پر بندہ نااہل ہوگا؟ یہ فیصلہ تو معاملے کو پارٹی سربراہ پر چھوڑ رہا ہے پارٹی سربراہ کی مرضی ہے وہ چاہے تو اسے نااہل کردے، پارٹی سربراہ اگر ڈیکلریشن نااہلی کا بھیجے ہی ناں تو کیا ہوگا؟ اس پر شہزاد شوکت نے کہا کہ پھر یہ معاملہ ختم ہو جائے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ووٹ دینے اور کاو¿نٹ نہ ہونے پر فوری نااہلی ہوگی؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نہیں فیصلے میں ایسا نہیں کہا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدم اعتماد میں اگر ووٹ گنا ہی نہ جائے تو وزیراعظم ہٹایا ہی نہیں جاسکتا، اس کا مطلب ہے آرٹیکل 95 تو غیر فعال ہوگیا، شہزاد شوکت نے کہا کہ اگر ووٹ گنا نہ جائے تو پھر بجٹ پارلیمنٹ سے منظور ہونے کی شرط کیوں ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ ووٹنگ کی مشق ہوتی ہی اس لیے ہے کہ اسے گنا بھی جائے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا آپ اقلیتی فیصلے کو بھی چیلنج کرنا چاہیں گے؟ پارلیمانی پارٹی کوئی اور فیصلہ کرے، پارٹی سربراہ کوئی اور فیصلہ کرے تو کیا ہوگا؟چیف جسٹس نے کہا کہ اراکین اسمبلی اگر پارٹی سربراہ یا وزیراعظم یا وزیراعلی کو پسند نہیں کرتے تو کیا ہوگا؟جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اس کا ایک حوالہ اقلیتی فیصلے میں موجود ہے، بلوچستان میں ایک مرتبہ اپنے ہی وزیراعلی کے خلاف اس کے اراکین تحریک عدم اعتماد لائے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی کے ساتھ دیکھیں کیا ہوا؟ پارٹی کی حکمرانی برقرار رہی لیکن وزیراعظم تبدیل وگیا، یہ عدالتی فیصلہ تو لگتا ہے عدم اعتماد کی تحریک کو غیر موثر بنانے کے لیے تھا۔قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی رکن اسمبلی نے ضمیر کی آواز پر ووٹ دیا اس کا فیصلہ کون اور کیسے کرے گا؟ جو لوگ سیاسی جماعتیں تبدیل کرتے رہتے ہیں کیا ان کا یہ اقدام بھی ضمیر کی آواز ہوتا ہے؟ میں کسی سیاسی جماعت کا نام نہیں لینا چاہتا، جو اصول دوسروں کیلئے طے کیا گیا اس کا اطلاق ہم پربھی ہوتا ہے، آرٹیکل 62 ون ایف کا ازخود اطلاق نہیں ہوسکتا، 62ون ایف سے متعلق جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ موجود ہے، اس فیصلے میں لکھا گیا صادق یا امین ہونے کا تعین براہ راست نہیں کیا جاسکتا، کسی کے ضمیر کا معاملہ طے کرنا مشکل ہے۔
اس پر شہزاد شوکت نے متعلقہ پیراگراف پڑھ کر سنادیا اور کہا کہ واقعے کے بعد منحرف اراکین کی تاحیات نااہلی کی درخواست آئی تھی، اس وقت کے وزیراعظم نے احتجاجی ریلی کی کال دے رکھی تھی، اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دلایا تھا کہ رکن کو سیشن میں شرکت سے نہیں روکا جائے گا، شہزاد شوکت کی جانب سے دورانِ سماعت سندھ ہاو¿س پر حملے کا بھی تذکرہ کیا گیا۔ شہزاد شوکت نے کہا کہ سندھ ہاو¿س پر حملہ کردیا گیا تھا اور تاثر دیا گیا کہ منحرف اراکین سندھ ہاو¿س میں موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ لوگ غائب بھی ہوجاتے ہیں، 63 اے میں طے کردہ اصول تو دودھاری تلوار ہیں، پارلیمانی پارٹی ہیڈ کے بغیر ووٹ دینا یا ووٹ دینے کے بجائے خاموش رہنا بھی عدالتی فیصلے کا حصہ ہے، اگر کوئی ناقد ہے تو کیا بوگا؟ میرے خیال میں آپ کہنا چاہتے ہیں ووٹ دیں، اگر خاموش رہیں یا مخالفت کریں گے تو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آج کی حزب اختلاف کی جماعتیں عدم اعتماد کی تحریک لاتی ہیں، حکومتی اراکین بھاگ جاتے ہیں تو پھر بھی اسی فیصلے کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ جن سیاست دانوں نے ایک پارٹی چھوڑ کردوسری پارٹی جوائن کی، کیا ان پر بھی تاحیات پابندی عائد کی گئی؟ کیا صدارتی ریفرنس وزیراعظم کی ایڈوائس پر بھیجا گیا تھا یا خود سے صدر نے دائر کیا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت صدارتی ریفرنس کی مخالف ہے۔
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پیپلزپارٹی بھی صدارتی ریفرنس کی مخالف ہے، پی پی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمارا موقف ہے صدارتی ریفرنس فیصلے کے ذریعے آئین میں نئے الفاظ شامل کیے گئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ منحرف اراکین کے بارے میں برطانیہ اور امریکا کے حوالہ جات دئیے جائیں، حال ہی میں لیبر پارٹی کی ایک رکن نے اپنے وزیراعظم کے خلاف تقریر کی، اس کی حثیت آزاد رکن کے طور پر تبدیل کردی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت ویسے بھی اس کیس میں کوئی زندہ سوال موجود نہیں ہے، اس وقت نہ عدم اعتماد کی تحریک زیرالتو ہے اور نہ اعتماد کی تحریک، ریفرنس سابق صدرعارف علوی نے دائر کیا عارف علوی اگر وکیل کے ذریعے پیش ہوکر معاونت کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہمارے کچھ اعتراضات ہیں انہیں سنا جائے ہمیں بطور سیاسی جماعت نوٹس جاری کیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ویسے بھی پی ٹی آئی کے سینیٹر ہیں آپ خود دلائل دیں یا پی ٹی آئی کی طرف سے دلائل دیں آپ کو اجازت ہے ہم آپ کو آپ کی باری پر سنیں گے۔عدالت نے سماعت کل تک کیلئے ملتوی کر دی۔