اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جب آئین میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ نااہل رکن کو ڈی سیٹ کیا جائے گا توڈی سیٹ ہی ہوگا ،آئین میں لکھا ہے تو اس پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ منحرف ارکان اسمبلی سے متعلق آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیلوں پر سماعت کر رہا ہے، جس کی سربراہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کر رہے ہیں۔ بینچ میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل شامل ہیں۔
گزشتہ روز سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے بنچ میں بیٹھنے سے انکار کیا، جس کے نتیجے میں ججز کمیٹی نے نیا بینچ تشکیل دیا، جس میں جسٹس نعیم اختر افغان کو شامل کیا گیا۔بانی پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھایا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو بعد میں سنیں گے، آپ بیٹھ جائیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہمیں بینچ کی تشکیل نو پر اعتراض ہے۔
چیف جسٹس نے دوبارہ کہا کہ آپ کو بعد میں سنا جائے گا، ہم معاملے کو بہتر طریقے سے چلانا چاہتے ہیں۔ کیس کی فائل میرے پاس آئی، میں نے جسٹس منصور علی شاہ کا نام تجویز کیا، اور اب لارجر بینچ مکمل ہو چکا ہے، کارروائی شروع کی جائے۔
سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 18 مارچ کو سپریم کورٹ بار نے درخواست دائر کی، اور 21 مارچ کو چار سوالات پر مبنی صدارتی ریفرنس بھجوایا گیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا ریفرنس اور آپ کی درخواستیں ایک ساتھ سنی جا سکتی تھیں؟ وکیل نے کہا کہ اس دوران وزیر اعظم نے ایک ریلی نکالی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی معاملات پر بات نہ کریں۔
صدر سپریم کورٹ بار نے مزید کہا کہ 8 مارچ کو عدم اعتماد کی تحریک آئی، اور 21 مارچ 2022 کو صدر مملکت نے سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیجا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آئینی درخواست کس نے دائر کی تھی؟ شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی نے درخواست دائر کی، اور اس وقت عارف علوی صدر مملکت تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک طرف صدر مملکت ریفرنس بھیج رہے ہیں اور دوسری طرف حکومتی جماعت آرٹیکل 184 کے تحت ریفرنس دائر کرتی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ریفرنس میں یہ پوچھا گیا کہ منحرف ارکان اسمبلی کا ووٹ شمار ہوگا؟ شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ نے ریفرنس پر رائے دے کر آئین میں نئے الفاظ شامل کیے۔
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ایک طرف رائے دی گئی کہ منحرف رکن ڈی سیٹ ہوگا، اور دوسری طرف کہا گیا کہ نااہلی کی مدت کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی، جو کہ تضاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب آئین میں لکھ دیا گیا کہ نااہل رکن کو ڈی سیٹ کیا جائے گا تو یہی ہوگا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈی سیٹ کرنا یا نہ کرنا پارلیمانی پارٹی کا فیصلہ ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا عدالت کی یہ رائے صدر کے سوال کا جواب تھی؟ صدر بار نے کہا کہ یہ رائے صدر کے سوال کا جواب نہیں تھی۔
چیف جسٹس نے مزید سوال کیا کہ آیا اخلاقیات سے متعلق ریفرنس میں سوال واقعی جینوئن تھا؟ شہزاد شوکت نے کہا کہ عدالت نے قرار دیا کہ منحرف رکن کا ووٹ گنا نہیں جا سکتا، اور فیصلے میں آئین پاکستان کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ریفرنس میں انحراف کے لیے کینسر کا لفظ شامل کیا گیا، اور یہ پوچھا کہ اگر یہ لفظ نہ ہوتا تو کیا سوال کا اثر کم ہو جاتا؟ آپ کو اس فیصلے پر اعتراض ہے یا نہیں؟ شہزاد شوکت نے کہا کہ ہم اکثریتی فیصلے پر اعتراض اٹھا رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ فیصلے میں یہ نہیں کہا گیا کہ ووٹ نہ گنے جانے پر فرد نااہل ہوگا۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر پارٹی سربراہ نااہلی کا ڈیکلریشن نہ بھیجے تو کیا ہوگا؟ اس پر شہزاد شوکت نے کہا کہ پھر یہ معاملہ ختم ہو جائے گا۔