اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بیان دیا کہ ماضی میں کیس کا فیصلہ بنچ دیکھنے کے بعد ہی معلوم ہو جاتا تھا۔ ہر جج کی کچھ خاصیتیں ہوتی ہیں، لہذا تبصرے حقیقت کی بنیاد پر ہونے چاہئیں، مفروضوں پر نہیں۔ صحافیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سچائی پیش کریں۔ اس عدالت نے بھی کچھ غلطیاں کی ہیں، اور جب تک ان غلطیوں کا اعتراف نہ کریں، درست سمت میں نہیں بڑھ سکتے۔ ایڈہاک ججز نے تعطیلات کے دوران 245 کیسز نمٹائے، روزانہ کی بنیاد پر 10 کیسز نمٹائے، اور اب تک 15 ہزار سے زیادہ کیسز کو حل کیا ہے۔ چیف جسٹس نے نئے عدالتی فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایسے مواقع پر ادارے کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل اور بار کے نمائندوں نے کارکردگی کو بہتر بنانے کے طریقے بتائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں 9 دن بعد بطور چیف جسٹس ایک سال مکمل ہوگا، اور جب انہوں نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا تو پہلی بار فل کورٹ بلایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کی کارروائی کو براہ راست نشر کرنے کا آغاز بھی کیا، اور پہلا کیس جو براہ راست دکھایا گیا وہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا تھا، جسے فل کورٹ نے سنا تھا۔ اس فیصلے کے بعد چیف جسٹس کے اختیارات 3 ججز کو تفویض کر دیے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے بنچ دیکھ کر ہی کیس کا فیصلہ معلوم ہوتا تھا، مگر اب انہیں بھی معلوم نہیں کہ کون سے ججز کیس سنیں گے۔ پہلے کاز لسٹ چیف جسٹس کے پاس منظوری کے لیے جاتی تھی، اب یہ طریقہ تبدیل ہو چکا ہے، اور ہر جج کا رجحان معلوم ہوتا تھا، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اب بنچز بنانے کا اختیار صرف چیف جسٹس کا نہیں رہا، اور ماہانہ کاز لسٹ کا نظام بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ اب کیسز کی سماعت کے لئے رجسٹری میں سہولت موجود ہے اور ماہانہ کاز لسٹ دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔ وکیلوں کو مقدمات کی تاریخوں کی آگاہی ملتی ہے، اور ہر دو ہفتے بعد کاز لسٹ جاری کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ کچھ لوگ پراسیکیوشن کی باتوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، جبکہ کچھ اس پر شکوک کرتے ہیں، یہ مسائل ہر نظام میں موجود ہیں، اور ان کو تجربے سے سیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کے عدالتی فیصلے اور اس کیس کے دوران مشکلات کا ذکر کیا، اور بتایا کہ کس طرح آئین شکن جنرل پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں جو نظام میں بہتری لائیں گے، اور سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 16 مکمل کی گئی ہے۔ کیسز کی تعداد کم کرنے کے لئے صرف منصوبہ بندی کافی نہیں، بلکہ ججز کو بھی کام کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے کیسز کے جلد حل کے لئے تاریخوں کے روایات ختم کرنے کا آغاز کیا ہے، اور ججز سے درخواست کی ہے کہ وہ کیسز کی سماعت جاری رکھیں۔
ایڈہاک ججز نے بھی چھٹیوں میں کام کیا ہے، اور اہم کیسز نمٹائے ہیں۔ چیف جسٹس نے شریعت اپیلٹ بنچ اور عالم ججز کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی اور ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب کی ذمہ داری قبول کرنے کا شکریہ ادا کیا۔