اسلام آباد ۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل حل کرنے کے لیے ہم غیرحقیقی امیدوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ہر شہری کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔
موسمیاتی تبدیلی کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ماہر ماحولیات نہیں بلکہ جج ہیں، لیکن ماحولیاتی مسائل پر بات کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق “کلائمیٹ فنانس” دراصل “کلائمیٹ جسٹس” کا ایک اہم پہلو ہے، کیونکہ ماحولیاتی آلودگی اس وقت ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب اور گلیشیئرز کا پگھلنا ماحولیاتی تبدیلیوں کی واضح علامات ہیں اور پاکستان کو ان سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ 1999ء میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے قوانین تو بنائے گئے لیکن ان پر عملدرآمد حکومت یا مالیاتی اداروں کی ذمہ داری ہے، اور اس حوالے سے عدالتوں میں بھی معاملات زیر بحث رہے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم کلائمیٹ جسٹس کے حوالے سے زیادہ تر شکایات ہی سنتے ہیں، لیکن دنیا کی طرف دیکھتے ہوئے ہمیں اپنی زراعت اور دیگر شعبوں کے لیے موثر منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ گزشتہ 7 سالوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے عملی طور پر کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے اعداد و شمار اور فنڈز کی واضح تصویر پیش نہیں کی گئی۔ پاکستان کے پاس ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے درکار مالی وسائل موجود نہیں، اور اس کے لیے کلائمیٹ فنانس کی اشد ضرورت ہے۔
جسٹس منصور نے زور دیا کہ پاکستان کے شہریوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے مطابق خود کو تیار کرنا ہوگا۔ ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے مالی وسائل پیدا کرنے اور ان کے درست استعمال کے لیے سنجیدہ مشاورت اور کلائمیٹ سائنس کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو فوری طور پر سیلاب جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے 30 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، اور ڈونر ممالک کی شمولیت کے بغیر یہ ممکن نہیں ہوگا۔ عالمی سطح پر مشترکہ حکمت عملی اختیار کیے بغیر ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔