طبی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ 1990 سے 2018 کے درمیان دنیا بھر میں گرمی کی لہر سے ہونے والی 35 فیصد اموات انسانوں کی پیدا کردہ موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ تھیں۔
آغا خان یونیورسٹی (AKU) کے انسٹیٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ (IGHD) میں منعقدہ کانفرنس میں ماہرین نے خبردار کیا کہ اگر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر فوری طور پر قابو نہ پایا گیا تو پاکستان جیسے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں یہ شرح مزید بڑھ سکتی ہے۔
کانفرنس میں مقامی و بین الاقوامی ماہرین، پالیسی سازوں، اور محققین نے شرکت کی تاکہ موسمیاتی تبدیلی، زراعت، غذائیت، اور دیگر اہم مسائل سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات تجویز کیے جا سکیں۔
افتتاحی خطاب میں آئی جی ایچ ڈی کے بانی ڈائریکٹر، ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ نے موسمیاتی تبدیلی کو ایک کثیر الجہتی بحران قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ صرف ماحولیاتی نہیں بلکہ صحت، غذائیت، اور معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔
لندن اسکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کے پروفیسر سر اینڈریو ہینز، فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) کی ڈاکٹر لینیٹ نیوفیلڈ، اور کلیکٹیو فار سوشل سائنس ریسرچ کے ڈاکٹر حارث گزدار نے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور ممکنہ حل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان کو شدید گرمی، غیر متوقع موسم کی تبدیلیوں، اور غذائی قلت جیسے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں خواتین اس بحران سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔ اس بحران سے نمٹنے کے لیے جامع اور مساوی حکمت عملیوں کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے کہا کہ اگرچہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے چیلنجز بے مثال ہیں، لیکن ان میں جدت اور ترقی کے مواقع بھی موجود ہیں۔
آغا خان یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر سلیمان شہاب الدین نے اس موقع پر کہا کہ یونیورسٹی کا مقصد باہمی تحقیق اور تعاون کے ذریعے ایسے پائیدار حل تلاش کرنا ہے جو پاکستان کو اس بحران سے نکال سکیں اور ایک بہتر مستقبل کی راہ ہموار کریں۔
اس دو روزہ کانفرنس کا مقصد پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے شواہد پر مبنی پالیسیز کی تشکیل اور مختلف شعبوں کے ماہرین کو ایک پلیٹ فارم پر لانا تھا، تاکہ ایک پائیدار اور محفوظ مستقبل کی جانب قدم بڑھایا جا سکے۔
آغا خان یونیورسٹی (AKU) کے انسٹیٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ (IGHD) میں منعقدہ کانفرنس میں ماہرین نے خبردار کیا کہ اگر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر فوری طور پر قابو نہ پایا گیا تو پاکستان جیسے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں یہ شرح مزید بڑھ سکتی ہے۔
کانفرنس میں مقامی و بین الاقوامی ماہرین، پالیسی سازوں، اور محققین نے شرکت کی تاکہ موسمیاتی تبدیلی، زراعت، غذائیت، اور دیگر اہم مسائل سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات تجویز کیے جا سکیں۔
افتتاحی خطاب میں آئی جی ایچ ڈی کے بانی ڈائریکٹر، ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ نے موسمیاتی تبدیلی کو ایک کثیر الجہتی بحران قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ صرف ماحولیاتی نہیں بلکہ صحت، غذائیت، اور معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔
لندن اسکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کے پروفیسر سر اینڈریو ہینز، فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) کی ڈاکٹر لینیٹ نیوفیلڈ، اور کلیکٹیو فار سوشل سائنس ریسرچ کے ڈاکٹر حارث گزدار نے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور ممکنہ حل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان کو شدید گرمی، غیر متوقع موسم کی تبدیلیوں، اور غذائی قلت جیسے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں خواتین اس بحران سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔ اس بحران سے نمٹنے کے لیے جامع اور مساوی حکمت عملیوں کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے کہا کہ اگرچہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے چیلنجز بے مثال ہیں، لیکن ان میں جدت اور ترقی کے مواقع بھی موجود ہیں۔
آغا خان یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر سلیمان شہاب الدین نے اس موقع پر کہا کہ یونیورسٹی کا مقصد باہمی تحقیق اور تعاون کے ذریعے ایسے پائیدار حل تلاش کرنا ہے جو پاکستان کو اس بحران سے نکال سکیں اور ایک بہتر مستقبل کی راہ ہموار کریں۔
اس دو روزہ کانفرنس کا مقصد پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے شواہد پر مبنی پالیسیز کی تشکیل اور مختلف شعبوں کے ماہرین کو ایک پلیٹ فارم پر لانا تھا، تاکہ ایک پائیدار اور محفوظ مستقبل کی جانب قدم بڑھایا جا سکے۔