امریکا اور کینیڈا کی جانب سے چینی الیکٹرک گاڑیوں پر 100 فیصد اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کے نفاذ نے پاکستان کے لیے نئے مواقع پیدا کیے ہیں۔ ای ٹربو کے سی ای او شیخ اسامہ نے ای ٹربو کے پلانٹ کا دورہ کرنے والے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چینی کمپنیاں اب اپنی مینوفیکچرنگ اور اسمبلنگ کے لیے دیگر ملکوں کا رخ کر رہی ہیں، جس سے سی پیک کے تحت صنعتی معاونت کے منصوبوں میں پاکستان میں ری لوکیشن کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔
شیخ اسامہ نے حکومت کی توجہ اس بات کی جانب دلائی کہ اگر ایکسپورٹ پراسیسنگ زون کے بجائے ٹیکنالوجی زون قائم کیے جائیں اور چینی کمپنیوں کو مدعو کیا جائے تو پاکستان بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی ایکسپورٹ کا مرکز بن سکتا ہے۔ انہوں نے طویل مدتی اور معاون پالیسی کے ذریعے پاکستان کی بجلی سے چلنے والی موٹرسائیکلوں اور کاروں کی ایکسپورٹ کے حجم میں اضافے کی ضرورت پر زور دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بجلی سے چلنے والی بائیکس اور کاروں کی قیمت میں کمی لانے کے لیے پالیسی مراعات کا دائرہ مزید ان پٹ پارٹس تک بڑھانا ہوگا۔ انہوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ پاکستان میں بجلی سے چلنے والی موٹرسائیکلیں تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں، جو نہ صرف ماحول دوست ہیں بلکہ ایندھن کی بچت کا مؤثر ذریعہ بھی ہیں۔
شیخ اسامہ نے مزید کہا کہ ان کی کمپنی نے جدید اور تیز رفتار موٹرسائیکلوں کی پیداوار کے لیے 50 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اگر معاون اور طویل مدتی پالیسی اپنائی گئی تو پاکستان میں بجلی سے چلنے والی بائیکس کے حجم میں نمایاں اضافہ ممکن ہے، جس سے ایکسپورٹ کی راہ ہموار ہوگی۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بجلی سے چلنے والی بائیکس اور گاڑیوں کے لیے چار بنیادی کمپوننٹس پر ٹیکس اور ڈیوٹی کی چھوٹ تو فراہم کی گئی ہے، مگر نئی ٹیکنالوجی ہونے کی وجہ سے دیگر 40 سے زائد پرزہ جات کی درآمد کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو عام طبقے کی رسائی میں لانے کے لیے ضروری ہے کہ ڈیوٹی اور ٹیکس کی چھوٹ کا دائرہ مزید بڑھایا جائے۔
آخر میں، شیخ اسامہ نے کہا کہ پاکستان میں بجلی سے چلنے والی بائیکس اور گاڑیوں کے لیے روڈ انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، خاص طور پر کراچی میں اس جدید ماحول دوست ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے سڑکوں کی حالت کو بہتر بنانا ہوگا۔
شیخ اسامہ نے حکومت کی توجہ اس بات کی جانب دلائی کہ اگر ایکسپورٹ پراسیسنگ زون کے بجائے ٹیکنالوجی زون قائم کیے جائیں اور چینی کمپنیوں کو مدعو کیا جائے تو پاکستان بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی ایکسپورٹ کا مرکز بن سکتا ہے۔ انہوں نے طویل مدتی اور معاون پالیسی کے ذریعے پاکستان کی بجلی سے چلنے والی موٹرسائیکلوں اور کاروں کی ایکسپورٹ کے حجم میں اضافے کی ضرورت پر زور دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بجلی سے چلنے والی بائیکس اور کاروں کی قیمت میں کمی لانے کے لیے پالیسی مراعات کا دائرہ مزید ان پٹ پارٹس تک بڑھانا ہوگا۔ انہوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ پاکستان میں بجلی سے چلنے والی موٹرسائیکلیں تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں، جو نہ صرف ماحول دوست ہیں بلکہ ایندھن کی بچت کا مؤثر ذریعہ بھی ہیں۔
شیخ اسامہ نے مزید کہا کہ ان کی کمپنی نے جدید اور تیز رفتار موٹرسائیکلوں کی پیداوار کے لیے 50 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اگر معاون اور طویل مدتی پالیسی اپنائی گئی تو پاکستان میں بجلی سے چلنے والی بائیکس کے حجم میں نمایاں اضافہ ممکن ہے، جس سے ایکسپورٹ کی راہ ہموار ہوگی۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بجلی سے چلنے والی بائیکس اور گاڑیوں کے لیے چار بنیادی کمپوننٹس پر ٹیکس اور ڈیوٹی کی چھوٹ تو فراہم کی گئی ہے، مگر نئی ٹیکنالوجی ہونے کی وجہ سے دیگر 40 سے زائد پرزہ جات کی درآمد کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو عام طبقے کی رسائی میں لانے کے لیے ضروری ہے کہ ڈیوٹی اور ٹیکس کی چھوٹ کا دائرہ مزید بڑھایا جائے۔
آخر میں، شیخ اسامہ نے کہا کہ پاکستان میں بجلی سے چلنے والی بائیکس اور گاڑیوں کے لیے روڈ انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، خاص طور پر کراچی میں اس جدید ماحول دوست ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے سڑکوں کی حالت کو بہتر بنانا ہوگا۔