کراچی: سندھ ہائیکورٹ میں مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف وکلاء کی جانب سے دائر کردہ درخواست کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ جب ترمیم ابھی ہوئی ہی نہیں تو عدالت کس طرح مداخلت کر سکتی ہے؟ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ترمیم سے پہلے یہ کیسے طے کیا جا سکتا ہے کہ یہ قانون کے مطابق ہے یا نہیں۔
درخواست گزار نے بتایا کہ آئینی ترمیم کا ڈرافٹ اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے۔ اس پر عدالت نے کہا کہ تو آپ یہاں درخواست لے کر آگئے؟ اسمبلی میں 24 کروڑ عوام کے منتخب نمائندے موجود ہیں۔
چیف جسٹس محمد شفیع صدیقی نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے پریکس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سپریم کورٹ کی فیصلہ پڑھا ہے؟ وکیل نے کہا کہ وہ ججمنٹ پڑھ چکے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ پھر بھی آپ نے ایسی درخواست دائر کرنے کی جسارت کیوں کی؟ یہ درخواست کیسے قابل سماعت ہے؟
درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ آئینی ترمیم عوام کے حقوق کے خلاف ہے اور یہ عدلیہ پر حملہ ہے، اس لیے ترمیم سے پہلے مسودہ بار کونسلز اور وکلاء تنظیموں کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے۔ عدالت نے پوچھا کہ کس قانون کے تحت مسودہ بار کونسلز اور وکلاء تنظیموں کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا جائے؟
عدالت نے مزید کہا کہ تین چار لائنیں لکھ کر درخواست دائر کر دی جاتی ہیں، پھر اخبارات میں خبر لگ جاتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ سپریم کورٹ کے 15 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف ہم کیسے جا سکتے ہیں، جبکہ اسمبلی میں 24 کروڑ عوام کے نمائندے موجود ہیں۔