اسلام آباد۔ سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63اے کی تشریح سے متعلق نظرثانی اپیلوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ میرا گناہ یہ ہے کہ میں برداشت کر لیتا ہوں، میری والدہ نے کہا تھا جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ کیس کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل مصطفین کاظمی نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ وہ اس کیس میں متاثرہ فریق ہیں۔ چیف جسٹس نے پولیس کو طلب کرتے ہوئے کہا کہ اس شخص کو باہر نکالیں۔مصطفین کاظمی نے کہا کہ باہر 500 وکیل موجود ہیں، ہمیں دیکھنا ہے کہ ہمارے خلاف فیصلہ کیسے آتا ہے۔ چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ کیا آپ ہمیں دھمکی دے رہے ہیں؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ اداروں کو ایسے چلانا چاہتے ہیں، اور روز کہا جاتا ہے کہ ججز کے دو گروپ ہیں۔ چیف جسٹس نے یہ بھی پوچھا کہ ایک سابق چیف جسٹس نے کتنے ارکان پارلیمنٹ کو جیل بھیجا ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل مصطفین کاظمی اس کے بعد عدالت سے چلے گئے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جو کچھ عدالت میں ہوا اس کا ذمہ دار میں نہیں ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اس کے ذمہ دار ہیں، آپ کیس نہیں چلانا چاہتے تو نہ چلائیں۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں اس معاملے میں آپ کے ساتھ ہوں، مجھے دشمن نہ بنائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن آپ کی پارٹی کی درخواست پر ہوا، اس وقت گالیاں کیوں نہیں دیں؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کچھ جج صاحبان نے لوگوں کو ضمانتیں دی تھیں اور انہیں گالیاں بھی ملی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عزت سے بڑی کوئی چیز نہیں ہوتی، وکلاءہماری تنخواہوں سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ جو شخص بدتمیزی کرکے گیا ہے، وہ اب یوٹیوب پر نظر آئے گا۔