ملتان۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے قائد مولانا فضل الرحمن نے آئینی عدالت کے قیام کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے عوام کو جلد انصاف فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔ آئینی ترامیم کے معاملے پر اتفاق کرنے میں ایک ہفتہ یا دس دن لگ سکتے ہیں۔ اگر ہر ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتا ہے تو وہ اپنے کردار کو بہتر انداز میں نبھا سکتا ہے۔
ملتان میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ مجوزہ آئینی ترامیم کا مقصد صرف حکومت کو تحفظ دینا تھا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پہلے مسودہ پیش کیا جائے، کیونکہ ابتدائی طور پر کوئی بھی ترامیم کا مسودہ دکھانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ بعد میں پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کو مسودے فراہم کیے گئے، جن میں بہت کم فرق تھا۔ بلاول بھٹو سے طے ہوا کہ دونوں جماعتیں اپنے اپنے مسودے تیار کریں گی، جس پر ہم نے تیاری شروع کر دی ہے، اور اس میں ہفتہ یا دس دن لگ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ طے کیا ہے کہ شخصیات کی بجائے اداروں کی اصلاحات کی جائیں۔ اداروں کے درمیان طاقت کا توازن برقرار رہنا چاہیے، اور آئین کو توڑنے یا کسی ادارے کو کمزور کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ مولانا نے کہا کہ آئینی عدالت کے قیام پر ہمارا اتفاق موجود ہے، جو میثاق جمہوریت میں بھی درج ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے آئینی عدالت کا قیام بھی بد نیتی پر مبنی تھا، اور یہ کہنا ضروری ہے کہ آئینی عدالت میں صرف سیاسی مقدمات کی سماعت ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آئینی عدالت کے قیام سے عوام کو جلد انصاف ملے گا۔
مولانا نے واضح کیا کہ ہمارا تحریک انصاف کے ساتھ کوئی باقاعدہ اتحاد نہیں ہے، لیکن اگر پی ٹی آئی کے ساتھ تلخی کا دور ختم ہو جائے تو آگے بڑھنا بہتر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے چئیرمین کی سوچ میں غلط فہمی ہے، اور اگر ہم اتفاق رائے کرتے تو یہ ایک مثبت علامت ہوتی۔
ایک سوال کے جواب میں، مولانا نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے مطالبے کو جائز قرار دیا اور کہا کہ انہیں عدالتوں میں پیش کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملٹری کورٹ کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے، اور کوشش ہے کہ حکومت کو غلط فیصلے کرنے سے روکا جائے۔
مولانا نے یہ بھی کہا کہ موجودہ پارلیمان کو قومی ترجمان نہیں سمجھتے، اور اگر ہم نے ردعمل ظاہر کیا تو یہ کچھ نہیں کرسکے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد میں موجودہ صورتحال سنگین ہے، اور حکومت بغیر تیاری ایوان میں ہم سے تعاون کی توقع رکھتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ کئی دہائیوں سے مفادات کی سیاست رواج پا چکی ہے، مگر ہم نظریات اور قوم کی آواز کو نمایاں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مجوزہ آئینی ترامیم کا مقصد بھی صرف حکومت کو تحفظ دینا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آئین میں وفاقی عدالتوں کا تصور موجود ہے، اور اس وقت سپریم کورٹ میں 60 ہزار مقدمات زیر التوا ہیں، جبکہ ملک بھر میں 24 لاکھ کیسز ہیں۔
مولانا نے بلاول بھٹو سے ملاقات میں یہ طے کیا تھا کہ دونوں جماعتیں اپنے تجاویز تیار کریں گی، اور ہم چاہتے ہیں کہ اتفاق رائے پیدا ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہر ادارے کا اپنا دائرہ کار ہوتا ہے، اور اگر ہر ادارہ اپنے حدود میں رہے تو وہ مؤثر طریقے سے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ متبادل تجاویز پر بھی کام شروع کر دیا گیا ہے، اور کچھ دنوں میں مسودہ تیار کیا جائے گا۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ حکومت کی بد نیتی واضح ہے کہ وہ آئینی عدالت کی تجویز قبول کر کے بھی ایسا ڈھانچہ تشکیل دے رہی ہیں جو مخالفین کو دیوار سے لگائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے ایک کاپی پیپلز پارٹی کو اور ایک ہمیں دی، اور مسودے میں فرق واضح ہوا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کسی قسم کا مسودہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے، اور بہتر ہوگا کہ ہم تحریک انصاف کے ساتھ تلخی کا دور ختم کر کے آگے بڑھیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہم اپوزیشن بینچوں پر موجود ہیں۔